کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 37
گورنرنے انہیں مزید مہلت دے دی۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ یہ مہلت پاکر مدینہ سے مکہ تشریف لے گئے۔مکہ پہنچ کر بھی انہوں نے کوئی وضاحت نہیں کی، البتہ وہاں سے کوفہ جانے کی تیاریاں شروع کردیں جس کی خبر پاکر ہمدرد وبہی خواہ، جن میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ متعدد صحابی بھی تھے، انہیں کوفہ جانے سے روکتے رہے لیکن وہ کوفہ جانے پر ہی مصر رہے۔حتی کہ ایک موقعے پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قریبی رشتہ دار عبداللہ بن جعفر گورنر کوفہ عمر و بن سعید کے پاس آئے اور ان کے استدعا کی آپ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نام ایک چٹھی لکھ دیں جس میں واضح الفاظ میں انہیں امان دیے جانے اور ان سے حسن سلوک کرنے کا ذکر ہو تاکہ حسین واپس آجائیں اور کوفہ نہ جائیں۔گورنر مکہ نے کہا کہ آپ جو چاہیں لکھ کر لے آئیں میں اس پر اپنی مہر لگادوں گا۔چنانچہ وہ اپنے الفاظ میں ایک امان نامہ لکھ لائے جس پر گورنر کوفہ نے اپنی مہر لگادی۔عبداللہ بن جعفر نے پھر درخواست کی کہ یہ چٹھی بھی آپ خود اپنے ہی بھائی کے ہاتھ حضرت حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچائیں تاکہ حسین پوری طرح مطمئن ہوجائیں کہ ساری جدوجہد گورنر مکہ کی طرف سے ہورہی ہے۔گورنر مکہ نے ان کی یہ بات بھی قبول کرلی اورا پنے بھائی کو بھی عبداللہ بن جعفر کے ساتھ روانہ کردیا۔یہ دونوں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو جاکر ملے لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے معذرت کردی اور کوفہ جانے پر ہی اصرار کیا اور یہاں بھی اپنے موقف کی وضاحت نہیں کی بلکہ صاف لفظوں میں کہا کہ میں کوفہ جس مقصد کے لیے جارہا ہوں وہ صرف مجھے معلوم ہے اور وہ میں بیان نہیں کروں گا۔(الطبری: ۲۹۱/۴۔۲۹۲) خود شیعہ مورخ ابن طقطقی بھی لکھتا ہے کہ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ مکہ سے کوفہ روانہ ہوئے تو انہیں مسلم کے حال کا کوئی علم نہیں تھا۔جب کوفے کے قریب پہنچ گئے تو انہیں مسلم کے قتل کا علم ہوا۔وہاں انہیں لوگ ملے اور انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ جانے سے روکا اور انہیں ڈرایا لیکن حسین رضی اللہ عنہ واپس ہونے پر آمادہ نہیں ہوئے اور کوفہ جانے کا عزم جاری رکھا۔ایک ایسے مقصد کے لیے جسے وہ خود ہی جانتے تھے۔ ((فلم یرجع وصمم علی الوصول إلی الکوفۃ لأمر ھو أعلم بہ