کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 31
سنت نے یزید پر سب و شتم کرنے سے بھی روکا ہے اور اسی ضمن میں اس امر کی صراحت بھی کی ہے کہ یزید کا قتل حسین رضی اللہ عنہ میں نہ کوئی ہاتھ ہے نہ اس نے کوئی حکم دیا اور نہ اس میں اس کی رضا مندی ہی شامل تھی۔ہم یہاں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اقوال کے بجائے امام غزالی کی تصریحات نقل کرتے ہیں جن سے عام اہل سنت بھی عقیدت رکھتے ہیں۔علاوہ ازیں امام ابن تیمیہ کا موقف کتاب کےآخر میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔امام غزالی فرماتے ہیں: ((ما صح قتلہ للحسین رضی اللّٰه عنہ ولا امرہ ولا رضاہ بذٰلک ومھما لم یصح ذٰلک لم یجز ان یظن ذٰلک فان اسآءۃ الظن ایضا بالمسلم حرام قال اللّٰه تعالیٰ: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱجْتَنِبُوا۟ كَثِيرًۭا مِّنَ ٱلظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ ٱلظَّنِّ إِثْمٌۭ ﴾۔۔۔فھذا الامر لا یعلم حقیقہ اصلا واذا لم یعرف وجب احسان الظن بکل مسلم یمکن احسان الظن بہ))(وفیات الاعیان: ۴۵۰/۲، طبع جدید) یعنی’’حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کا قتل کرنا یا ان کے قتل کرنے کا حکم دینا یا ان کے قتل پر راضی ہونا، تینوں باتیں درست نہیں اور جب یہ باتیں یزید کے متعلق ثابت ہی نہیں تو پھر یہ بھی جائز نہیں کہ اس کے متعلق اسی بدگمانی رکھی جائے کیونکہ کسی مسلمان کے متعلق بدگمانی حرام ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے، بنا بریں ہر مسلمان سے حسن ظن رکھنے کے وجوب کا اطلاق یزید سے حسن ظن رکھنے پر بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح اپنی معروف کتاب احیاء العلوم میں فرماتے ہیں: ((فان قیل ھل یجوز لعن یزید بکونہ قاتل الحسین او آمراً بہ قلنا ھٰذا لم یثبت اصلاً ولا یجوز ان یقال انہ قتلہ او امر بہ مالم یثبت))(۱۳۱/۳) یعنی’’اگر سوال کیا جائے کہ کیا یزید پر لعنت کرنی جائز ہے کیونکہ وہ(حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا)قاتل ہے یا قتل کاحکم دینے والا ہے ؟ تو ہم جواب میں کہیں گے کہ یہ باتیں قطعاً