کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 26
لیکن کیا اہل سنت اس نقطہ ٔ نظر کو تسلیم کرلیں گے؟ کیا صحابہ وتابعین کی اس بے غیرتی و بے حمیتی کی وہ تصدیق کریں گے جو شیعی انداز فکر کا منطقی نتیجہ ہے؟ کیا صحابہ رضی اللہ عنہم نعوذ باللہ بے غیرت تھے؟ ان میں دینی حمیت اور دین کو بچانے کا جذبہ نہیں تھا؟ یقیناً اہل سنت صحابہ کرام کے متعلق اس قسم کا عقیدہ نہیں رکھتا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی بڑی تلخ ہے کہ اہل سنت شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا جو فلسفہ بیان کرتے ہیں وہ اسی تال سر سے ترتیب پاتا ہے جو شیعیت کا مخصوص راگ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سانحۂ کربلاکو معرکہ حق و باطل باور کرانے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت کردار اور ان کی دینی حمیت مجروح ہوتی ہے اور شیعوں کا مقصد بھی یہی ہے لیکن یہ ہمارے سوچنے کی بات ہے کہ واقعہ ایسا ہے یا نہیں؟ تو حقیقت یہ ہے کہ یہ حق و باطل کا تصادم نہیں تھا، یہ کفر واسلام کا معرکہ نہیں تھا، یہ اسلامی جہاد نہ تھا۔اگر ایسا ہوتا تو اس راہ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ اکیلے نہ ہوتے،ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تعاون بھی انہیں حاصل ہوتا جن کی پوری عمریں اعلائے کلمۃ اللہ میں گزریں جو ہمہ وقت باطل کے لیے شمشیر برہنہ اور کفر وارتداد کےلیے خدائی للکار تھے۔یہ تصادم دراصل ایک سیاسی نوعیت کا تھا اس نکتے کو سمجھنے کے لیے حسب ذیل پہلو قابل غور ہیں۔ واقعات کربلا سے متعلقہ سب ہی تاریخوں میں ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ جب کوفے کی طرف کوچ کرنے کے لیے تیار ہوگئے تو ان کے رشتہ داروں اور ہمدردوں نے انہیں روکنے کی پوری کوشش کیاور اس اقدام کے خطرناک نتائج سے ان کو آگاہ کیا۔ان میں حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابو سعید خدری، حضرت ابو الدرداء،حضرت ابو واقد لیثی، جابر بن عبداللہ، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کے بھائی محمد بن الحنفیہ نمایاں ہیں۔آپ نے ان کے جواب میں نہ عزم سفر ملتوی فرمایا نہ اپنے موقف کی کوئی دلیل پیش کی،ورنہ ممکن ہے کہ وہ بھی اس موقف میں ان کے ساتھ تعاون کے لیے آمادہ ہو