کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 11
((وَاَصَحُّ مَا وَقَفتُ عَلَیہِ مِن ذٰلِکَ أَنَّ الصَّحَابِیَّ مَن لَقِیَ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مُؤمِناً بِہٖ وَمَاتَ عَلَی الاِسلَامِ، فَیَدخُلُ فِیمَن لَقِیَہُ مَن طَالَت مُجَالَسَتُہُ لَہُ أَو قَصُرَت وَ مَن رَوٰی عَنہُ أَو لَم یَروِ وَمَن غَزَا مَعَہُ أَو لَم یَغزُ وَ مَن رَاَٰہُ رُوْيَةَ وَلَو لَم یُجَالِسہُ وَ مَن لَم یَرَہُ بِعَارِضِ کَالعَمٰی))(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ:۱۵۸/۱، طبع دارالکتب العلمیۃ: ۱۹۹۵ء) ’’سب سے زیادہ صحیح تعریف صحابی کی جس پر میں مطلع ہوا وہ یہ ہے کہ "وہ شخص جس نے ایمان کی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور اسلام ہی پر اس کی موت ہوئی۔" پس اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات(قطع نظر اس سے کہ)اسے آپ کی ہم نشینی کا شرف زیادہ حاصل رہا یا کم، آپ سے روایت کی یا نہ کی۔آپ کے ساتھ غزوے میں شریک ہوا یا نہیں ور جس نے آپ کو صرف ایک نظر ہی سےدیکھاہو اور آپ کی مجالس،ہم نشینی کی سعادت کا موقع اسے نہ ملا ہواور جو کسی خاص سبب کی بنا پر آپ کی رؤیت کا شرف حاصل نہ کرسکا ہو جیسے نابینا پن۔‘‘ اس لیے اہل سنت کا خلفاء اربعہ ابوبکر وعمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم اور دیگر ان جیسے اکابر صحابہ کی عزت و توقیر کو ملحوظ رکھنا لیکن بعض ان جلیل القدر اصحاب رسول کی منقبت و تقدیس کا خیال نہ رکھنا یا کم از کم انہیں احترام مطلوب کا مستحق نہ سمجھانا جن کے اسمائے گرامی مشاجرات کے سلسلے میں آتے ہیں جیسے حضرت معاویہ، حضرت عمرو بن العاص، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم ہیں، یکسر غلط اور رفض و تشیع کا ایک حصہ ہے۔اہل سنت کو اس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ خلفائے راشدین کی عزت و توقیر تو کسی حد تک معقولیت پسند شیعہ حضرات بھی ملحوظ رکھنے پر مجبور ہیں اور ان کا ذکر وہ نامناسب انداز میں کرنے سے بالعموم گریز ہی کرتے ہیں البتہ حضرت معاویہ،عمروبن العاص رضى اللہ عنہم وغیرہ کو وہ بھی معاف نہیں کرتے اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام لیوا بھی یہی مؤقف اختیار کرلیں،تو پھر محبان صحابہ اور دشمنان صحابہ میں فرق کیا رہ جاتاہے؟ اور ان صحابہ کو احترام مطلوب سے فروتر خیال کرکے ان کے شرف و فضل کو مجروح کرنا کیا صحابیت کے قصر رفیع میں نقب زنی