کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 102
حسین رضی اللہ عنہ کو عراق جانے سے روکا اور انہیں اہل عراق کی بے وفائی یاد دلائی۔(البدایہ، ۱۶۳/۸) روکنے اور سمجھانے کی ایک کوشش حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ایک اور قریبی عزیز حسین کے چچا زاد اوربہنوئی عبداللہ بن جعفر نے بھی نہایت مؤثر انداز کی۔حضرت حسین جب مکے سے کوفہ جانے کے لیے نکلے تو عبداللہ بن جعفر نے ایک مکتوب لکھ کر اپنے دو بیٹوں کے ہاتھ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بھیجا، اس میں انہوں نے تحریر کیا۔ ’’میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ کو کہتا ہوں کہ آپ(راستے ہی سے)لوٹ آئیں اور میرے خط کو غور سے پڑھیں، مجھے آپ کی بابت یہ اندیشہ ہے کہ آپ نے جس طرف رُخ کیا ہے اس میں آپ کی بھی ہلاکت ہے اور آپ کے گھر والوں کی بھی۔آج اگر آپ ہلاک ہوگئے تو اسلام کی روشنی بجھ جائے گی۔اس لیے کہ آپ ہدایت یافتہ لوگوں کا عَلم اور اہل ایمان کی امیدوں کا مرکز ہیں۔پس آپ(کوفہ)جانے میں عجلت سے کام نہ لیں، میں بھی(مزید گفتگو کے لیے)اپنے خط کے پیچھے آپ کے پاس آرہا ہوں۔’‘والسلام یہ خط روانہ کرکے وہ خود گورنر مکہ عمرو بن سعید کے پاس گئے اور ان سے کہا: ’’آپ حسین رضی اللہ عنہ کے نام ایک خط لکھ دیں جس میں آپ کی طرف سے حفظ و امان کی ضمانت،حسن سلوک اور صلہ رحمی کی تمنا کا اظہار اور اپنے خط میں ان کےلیے عہد کی پاسداری کی یقین دہانی ہو۔نیز ان سے واپس آنے کا مطالبہ کریں، شاید اس سے وہ مطمئن ہوجائیں اور لوٹ آئیں۔‘‘ گورنر مکہ عمرو بن سعید نے عبداللہ بن جعفر سے کہا: ’’آپ جو چاہیں، لکھ کر میرے پاس لے آئیں،میں اس پر مہر لگادوں گا۔‘‘ چنانچہ عبداللہ بن جعفر نے عمر و بن سعید کی طرف سے اپنی خواہش کے مطابق ایک تحریر تیار کی اور پھر عمرو بن سعید کے پاس لائے۔انہوں نے اس پر اپنی مہر ثبت کردی۔عبداللہ بن جعفر نے ان سے مزید درخواست کی کہ آپ میرے ساتھ اپنی امان بھی بھیجیں۔چنانچہ انہوں نے اپنا بھائی یحییٰ ساتھ بھیج دیا۔یہ دونوں گئے اور راستے میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے ملے اور انہیں گورنر کا خط پڑھ کر سنایا، لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے واپس آنے سے