کتاب: رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا - صفحہ 100
اس میں قیام رکھو، یہاں تک کہ عراقی اپنے دشمن کو وہاں سے نکال دیں، پھر بے شک تم وہاں چلے جانا۔بصورت دیگر تم یمن چلے جاؤ، وہاں قلعے اور گھاٹیاں(یعنی پناہ گاہیں)ہیں اور وہاں تمہارے والد کے حمایتی بھی ہیں،تم لوگوں سے کنارہ کش رہو،ان کو لکھ دو اورا پنے داعی ان کے ہاں بھیج دو، اس طرح مجھے امید ہے کہ تم جو چاہتے ہو وہ تمہیں حاصل ہوجائے گا۔‘‘ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ابن عم! اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تم خیرخواہ اور مہربان ہو، لیکن میں نے(کوفہ)جانے کا تہیہ کرلیا ہے۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا:’’اگر تم نے ضرور جانا ہی ہے تو اپنی اولاد اور اپنی عورتوں کو مت لے جاؤ! اس لیے کہ اللہ کی قسم! مجھے اندیشہ ہے کہ تم اسی طرح قتل نہ کردیئے جاؤ جیسے عثمان رضی اللہ عنہ قتل کئے گئے اور ان کی عورتیں اور ان کے بچے ان کو دیکھتے ہی رہ گئے۔‘‘ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی بابت آتا ہے کہ ان کے قیام مکہ کے دوران انہیں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے عراق جانے کی اطلاع ملی، تو وہ تین راتوں کی مسافت طے کرکے ان سے ملے اور ان سے پوچھا کہ آپ کا کیا ارادہ ہے؟ حضر ت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں عراق جارہا ہوں اور ان کے ہاتھوں میں خطوط تھے،ان کی طرف اشارہ کرکے انہوں نے کہا، دیکھو! یہ ان کے خطوط اور ان کی طرف سے بیعت کا عہد و پیمان ہے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا۔آپ ان کے پاس نہ جائیں۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے یہ بات ماننے سے انکار کردیا۔تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، میں آپ کو ایک حدیث سناتا ہوں۔ ’’جبریل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے آپ کو اختیار دیا کہ آپ دنیا اور آخرت میں سے جسے چاہیں پسند کرلیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے مقابلے میں آخرت کو پسند فرمایا۔‘‘ اور آپ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر ہیں، اللہ کی قسم! تم میں سے کوئی بھی دنیا حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوگااور اللہ نے تم لوگوں سے دنیا کو اس سے بہتر چیز کے لیےپھیرا ہے۔یہ سب باتیں سن کر بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے واپس ہونے سے انکار کردیا۔تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے سینے سے چمٹا لیا اور رونے لگے اور فرمانے