کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 94
عن المحارم. ‘‘[1] ’’اے بادشاہ! ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے، بتوں کو پوجتے تھے، مردارکھاتے تھے، بدکاریاں کرتے تھے، ہمسائیوں کو ستاتے تھے، بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا، زبردست زیردستوں کو کھا جاتے تھے، اس دوران ہم میں اللہ نے ایک رسول بھیجا جو ہم میں سے ہی ہے، ہم اس کے نسب، اس کی سچائی، امانت اور پاک دامنی کو جانتے ہیں، اس نے ہم کو سکھایاکہ ہم صرف ایک اللہ کی توحید کو مانیں اور اسی کی عبادت کریں اور ہم اپنے آباؤ اجدادکی مانند پتھروں اور بتوں کو پوجنا چھوڑ دیں ، سچ بولیں، امانتیں ادا کریں، صلہ رحمی سے کام لیں، ہمسائیوں سے حسن سلوک کریں اور حرام کاریوں سے رک جائیں۔‘‘ حسن اخلاق اور اخلاقی اقدار کے داعی نے مزید فرمایا: ((إن من أخیارکم أحسنکم أخلاقا)) [2] ’’تم میں سے بہترین شخص وہ لوگ ہے جس کااخلاق تم میں سے سب سے اچھا ہو۔‘‘ ایک اور مقام پر فرمایا: (( ما من شیء أثقل في میزان المؤمن یوم القیامة من خلق حسن)) [3] ’’قیامت کے دن مومن کے میزان میں اچھے اخلاق سے بھاری کوئی چیز نہیں ہو گی۔‘‘ حسن اخلاق ایک جامع لفظ ہے جس کے تحت ہر وہ نیک خصلت آجاتی ہے جس سے انسان کے کردار میں حسن آتا ہے، اس کا تزکیہ ہوتا ہے اور اس کو رفعت وبلندی حاصل ہوتی ہے، جیسے حیاء، بردباری، نرمی، رواداری، خوش طبعی، سچائی، امانت داری، خیر خواہی، ثابت قدمی اور دیگر مکارم اخلاق وغیرہ۔ 5۔آداب زندگی کی تعلیم اور نوجوانوں کی تربیت امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کی تربیت اور اصلاح کرتے ہوئے انہیں آدابِ زندگی مثلاً:کھانے پینے کے آداب، سونے اور جاگنے کے آداب، جمائی اور چھینک کے آداب، قضائے حاجت کے آداب، راستے پر چلنے اور
[1] ابن حنبل، أبو عبد اللّٰہ أحمد بن محمد، مسند الإمام أحمد بن حنبل، حديث جعفر بن أبی طالب رضي اللّٰہ عنه: 1740، قال شعىب الأرنؤوط هذا حدیث حسن، الموسوعة الحدىثیة، الطبعة الثانیة، 1999م [2] صحيح البخاري، كتاب المناقب، باب صفة النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم : 3559 [3] جامع الترمذي، كتاب البر والصلة، باب ما جاء في حسن الخلق: 2002، قال الألباني هذا الحدیث صحيح