کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 58
کرناشروع کردیاتھا ،جس سےان کی رنگت میں تغیر واقع ہوگیا تھا ۔‘‘ [1]
قحط کےسلسلے میں سیدناعمر رضی اللہ عنہ اس قدر پریشان تھے کہ ان کےغلام اسلم فرماتے ہیں:
’’ہمیں اندیشہ تھا کہ اگر قحط کاخاتمہ نہ ہوا توسیدنا عمر رضی اللہ عنہ شدت غم سےانتقال کرجائیں گے۔‘‘ [2]
قحط سےنمٹنے کےلیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی حکمت عملی
اس ہلاکت آفرین قحط سےنمٹنے کےلیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےمتعدد اقدامات کیے:
1۔ مختلف علاقوں کےحکام کوخطوط لکھے کہ وہ اہل حجاز کےلیےغلہ وغیرہ کی صورت میں امداد روانہ کریں۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتےہیں :
’’وكتب إلي أمراء الأمصار أن أغيثوا أهل المدينة ومن حولها فإنه قد بلغ جهدهم. ‘‘[3]
’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےمختلف علاقوں کےامراء کوخط لکھا کہ وہ اہل مدینہ اوردیگر قحط زدگان کےلیے امداد روانہ کریں کیونکہ وہ سخت مصیبت ومشقت میں مبتلا ہیں ۔‘‘
چنانچہ علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ (متوفیٰ 808ھ) کےحسب تصریح سیدنا ابو عبید ۃ رضی اللہ عنہ چارہزار اونٹ غلے کےلے کر مدینہ پہنچے اورسیدناعمروبن العاص رضی اللہ عنہ نےبحرقلزم کےراستے ،مصر سےغلہ بھیجا۔ [4]
2۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےکھاتے پیتے گھرانوں میں فقراء اورمساکین کےکھانے کاانتظام کرنےکاحکم دیا۔ علامہ ابن رجب رحمہ اللہ (متوفی795ھ) نےلکھاہے:
’’وكان عمر في عام الرمادة يدخل علي أهل البيت من المسلمين مثلهم، ويقول: لن يهلك امرؤ وعنده نصف قوته. ‘‘[5]
’’’عام الرمادۃ‘‘ کےدوران سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کےہرگھر میں اتنے افراد بھیج دیتے تھے، جتنے افراد پہلے
[1] الفسوي، یعقوب بن سفیان، المعرفة والتاریخ: 3/308، مؤسسة الرسالة، بيروت، الطبعة الثانية، 1981م
[2] الذهبي، شمس الدين أبو عبد الله، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام: 1/796، دار الغرب الإسلامي، الطبعة الأولى، 2003م
[3] البداية والنهاية: 7/104
[4] ابن خلدون، عبد الرحمن بن محمد بن محمد، تاریخ ابن خلدون: 2/114، دار الفكر، بيروت، الطبعة الثانية، 1988م
[5] ابن رجب، زين الدين، عبد الرحمن بن أحمد، فتح الباري شرح صحيح البخاري:5/167، مكتبة الغرباء الأثرية، المدينة النبوية، الطبعة الأولى، 1996م