کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 50
فرماتےتھے۔ فتوح البلدان میں ہے : ’’وكان يصرف ما يأتيه منها إلى أبناء السبيل. ‘‘[1] ’’جوکچھ اس سےآمدنی ہوتی تھی اس کو آپ مسافروں پر صرف فرماتےتھے ۔‘‘ بعدازاں مکہ ،طائف اورحنین فتح ہوئے لیکن کسی موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاراضی کومجاہدین میں تقسیم نہیں فرمایا۔ تقسیم اراضی مسلم حکمران کی صوابد ید پرہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےاس تمام ترمتنوع طرز عمل سےیہ اصول اخذ کیاجاسکتاہے کہ مفتوحہ اراضی کی تقسیم مسلم حکمران کی صوابد یدپر ہے کہ وہ جہاں مصلحت وضرورت کاتقاضا دیکھے وہاں اسے استعمال کرے۔ قرآن کریم سےبھی اسی تصور کی تائید ہوتی ہے اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاطرز عمل بھی قرآن کی ہدایات ہی پرمبنی ہے۔چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿ مَا اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبٰى وَ الْيَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِيْنِ وَ ابْنِ السَّبِيْلِ كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَآءِ مِنْكُمْ وَ مَا اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ١ۗ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾ [2] ’’جوکچھ اللہ تعالی نےدوسری بستی والوں سےرسول کودلوایا ہےاس میں خداکاحق ہے اوررسول کاحق ہے، اورقربتداروں اوریتیموں کاحق ہےاورغریبوں اورمسافروں کاحق ہے تاکہ وہ تمہارے چند دولت مندوں کےدرمیان گردش نہ کرنے لگےجوکچھ رسول تم کودیں وہ لے لواورجس چیز سےتم کوروک دیں روک جاؤ اوراس بارےمیں اللہ سےڈر و ۔اللہ تعالیٰ سخت سزادینے والاہے۔‘‘ اس کےبعد پھر فقراء ومہاجرین کاتذکرہ ہے اورپھر بعد میں آنے والوں کا۔اس سےمعلوم ہوتاہے کہ اموال اورجائیدادوں کی تقسیم میں یہ ملحوظ رہناچاہیے کہ یہ محض دولت مندوں میں گردش نہ کرتی رہے اوردوسرے لوگ بالکل محروم نہ رہ جائیں ۔ پھر یہ ہدایت کی گئ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح تقسیم کردیں اس پر راضی ہوناچاہیے کہ آپ کو بحیثیت سربراہ ریاست یہ اختیار حاصل ہےکہ حسب ضرورت ومصلحت جیسےچاہیں دیں اورجسے چاہیں نہ دیں۔ آخر میں یہ بھی واضح کردیاگیا ہے کہ اس میں بعد میں آنے والے مسلمانوں کابھی حصہ ہے۔ یہ صرف موجودہ مسلمانوں کاحصہ نہیں بلکہ تاقیامت آنےوالے مسلمان اس میں شریک ہیں۔
[1] فتوح البلدان :1/38 [2] سورة الحشر:7:59