کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 42
المختصر صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں آنے والی تمام روایات محدثین رحمہم اللہ کے بیان کردہ اِسنادی معیار پرپورا اترتی ہیں۔ مختلف الحدیث یا صحیح متعارض روایات تحقیقِ حدیث کے بجائے تاویلِ حدیث کا موضوع ہیں۔چنانچہ ایسا تعارض چونکہ ائمہ کے فہم وفراست سے تعلق رکھتا ہے، اسی لیے یہ حدیث کی صحت کے کبھی بھی منافی نہیں ہوسکتا،بلکہ اسکی نسبت خود ائمہ کرام کے تقصیر فہم کی طرف کی جانی چاہیے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں بعض اہل علم کی طرف سے صحیح بخاری کی ایک حدیث کے مفہوم کے حوالے سے اٹھائےگئے بعض اشکالات نقل فرماکر ناراضگی سے فرماتے ہیں:
’’أَقْدَمَ جَمَاعَةٌ مِنَ الْأَكَابِرِ عَلَى الطَّعْنِ فِي صِحَّةِ هَذَا الْحَدِيثِ مَعَ كَثْرَةِ طُرُقِهِ وَاتِّفَاقِ الشَّيْخَيْنِ وَسَائِرِ الَّذِينَ خَرَّجُوا الصَّحِيحَ عَلَى تَصْحِيحِهِ وَذَلِكَ يُنَادِي عَلَى مُنْكِرِي صِحَّتِهِ بِعَدَمِ مَعْرِفَةِ الْحَدِيثِ وَقِلَّةِ الِاطِّلَاعِ عَلَى طُرُقِهِ. ‘‘ [1]
’’یہ حدیث بے شمار اسانید سے مروی ہے اور صحیحین، نیز صحیح احادیث جمع کرنے والے دوسرے ائمہ نے بھی اس حدیث کی صحت پر اتفاق نقل کیا ہے، لیکن اس کے باوجود اہل علم کی ایک جماعت نے اس حدیث کی صحت کو سند کے قطعی الثبوت ہونے سے قطع نظر ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ جو لوگ اس قسم کی تنقید صحیحین یا ثابت شدہ روایات پر کرتے ہیں، توایسی تنقید ان اہل علم کی فنِ حدیث میں عدمِ مہارت اور اس روایت کی کثرتِ اسانید سے ان کی اپنی ناواقفیت کی دلیل ہے۔‘‘
ماقبل کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ خبر مقبول میں پائی جانے والی پانچ شرائط میں سے تین شرائط ایسی ہیں کہ جن کے عدم سے روایت کی صحت معدوم ہو جاتی ہے جبکہ باقی اضافی شرائط ہیں جن کے نہ پائے جانے سے روایت کی صحت معدوم تو نہیں ہوتی البتہ کچھ کمزور ہو جاتی ہے۔ اصول فقہ کی معروف اصطلاحات میں پہلی قسم کی شرائط کو شرائط معلقہ اور دوسری قسم کی شرائط کو شرائط متصلہ کہا جاتا ہے۔ پہلے کے عدم سے حکم کا بطلان جبکہ دوسرے کے عدم سے حکم کا فساد ونقصان لازم آتا ہے۔ [2]
ماہرین فن حدیث کے ہاں ضعیف کا اطلاق کس روایت پر کیا جاتا ہے؟
گزشتہ بحث سے واضح ہوچکا ہے کہ’ ضعیف حدیث‘ عام طور پر وہ ہوتی ہے جس میں صحت حدیث کی اساسی اور ضمنی شرائط پائی جائیں۔ اس پس منظر میں محدثین کرام رحمہم اللہ کے استعمالات واصطلاحات میں ’ضعیف حدیث‘کی تعریفیں دو طرح سے منقول ہیں:
۱۔ جو روایت اپنی پہلی تین شرائط کے اعتبار سے مردودہو، اسے ضعیف کہا جائے گا اور جو اپنی سند کے اعتبار سے
[1] العسقلاني، أحمد بن علي بن حجر، فتح الباری شرح صحيح البخاري:8 /338
[2] زیدان، عبد الکریم، ڈاکٹر، جامع الاصول اردو ترجمہ( الوجیز فی اصول الفقہ): ص 78۔79، بالاختصار وبالتصرف یسیر، شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد، طبع اول 2014ء