کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 41
متعلق تحقیق کا بھی جائزہ لے لیا جائے، اگرچہ یہ الگ بات ہے کہ روایت کی نقل کا مرکزی کردار چونکہ راوی ہوتا ہے، ا س لیے راوی کو نکال کر تحقیقِ روایت کا ہر دعویٰ باطل ہے۔ الغرض تحقیق روایت کے تمام تر اَسالیب میں بہرحال تحقیق کا آخری مدار راوی یا سند ہی ہوگی۔ اسی وجہ سے اِمام شافعی رحمہ اللہ نے بھی اپنے معروف زمانہ کتاب ’الرسالۃ‘میں تحقیقِ حدیث کے ضمن میں راویانِ حدیث کو شاہدینِ واقعہ کی مثل قرار دیا ہے اور ان کے ہاں ’سند‘ کی اہمیت اسی طرح ہے جس طرح عدالت میں کسی حق کے اثبات یا کسی کو مجرم قرار دینے کے لیے واحد ذریعہ گواہان ہوتے ہیں، جبکہ قرائن کو گواہان کے ساتھ معاون کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا ہے، ناکہ فیصلہ کی اصل بنیاد کے طور پر۔ [1] دنیا میں کسی شے کے علم کے حوالے سے ہمارے پاس صرف حواس یا عقل موجود ہیں۔ حواس کے ذریعے سامنے موجود امور سے اور عقل کے ذریعے حاصل شدہ معلومات کو باہم ترتیب دے کر مختلف نتائج اخذ کرکے ہم ایک محدود علم حاصل کرسکتے ہیں، جبکہ باقی تمام امور کے علم کے لیے ہمیں دوسرے انسانوں کی طرف رجوع کرنا پڑتاہے جو ہمیں زمانہ ماضی یا حال میں موجود واقعات کا علم بذریعہ خبر دیتے ہیں۔ خبر کا ذریعہ حواس خمسہ ہوتے ہیں، جن کے ذریعے سے کسی واقعہ کا ادراک کیا جاسکتا ہے۔تحملِ واقعہ میں اور پھراس واقعہ کی آگے روایت میں ان پانچ ذرائع کے علاوہ کوئی ذریعہ استعمال نہیں ہوتا اور نہ ہی ان ذرائع کے علاوہ آنے والے واقعات کا بیان خبر کہلا سکتا ہے۔ ’حس‘ سے حاصل ہونے والے علم کو اہل منطق کی اصطلاح کے مطابق ’علم مشاہدہ‘کہتے ہیں، جوکہ شهد سے باب مفاعلہ کا مصدر ہے۔ شاہد بمعنی واقعہ کا گواہ، بھی اسی سے ہے۔ کیونکہ شاہدِواقعہ حواس کے ذریعے حاصل ہونے والی شے کی شہادت وگواہی دیتا ہے۔ اسی لیے اسے شاہد کہتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے شرعی واقعات کی خبر دی ہے اس لیے وہ بھی سنت کے شاہدین کا مقام رکھتے ہیں۔ تمام محدثین رحمہم اللہ بھی خبر متواتر میں ’خبر کا ذریعہ حس ہو‘ کی شرط اسی لیے لگاتے ہیں کہ جو خبر حس سے نقل نہ ہو، وہ خبر کہلائی جاسکتی ہے اور نہ اس کی بنیاد پر شہادت کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ پس جس خبر کی بنیاد حواس خمسہ بنیں اس خبر کے مخبرین کو تحقیقِ خبر میں وہی مقام دیا جائے گا جو واقعہ اور تحقیقِ واقعہ میں دنیا کے معروف عدالتی نظام میں شاہدینِ واقعہ کو دیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ فن حدیث کی تمام مفصل اور مختصر کتب میں وضاحت موجود ہے کہ سند کو سند کہتے ہی اس لیے ہیں کہ کسی چیز کی خبر اور پھر اس خبر کی تحقیق کے سلسلہ میں اصل اعتماد اسی پر ہوتا ہے، جیساکہ محدثین کرام رحمہم اللہ اس کے اصطلاحی معنیٰ کی مناسبت سے اس کے لغوی معنی کے ساتھ یونہی پیش فرماتے ہیں۔ [2]
[1] الشافعي، أبو عبد اللّٰہ محمد بن إدريس، الرسالة: ص 160 ۔ 174، مكتبة الحلبي، مصر، الطبعة الأولى، 1358ھ [2] تدریب الراوی:1/41۔42