کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 40
کہا تھا، ان کو حل فرمایا ہے۔ اِمام ترمذی رحمہ اللہ کے بقول صرف دو روایات کتب حدیث میں ایسی ہیں جن کی علت (اِشکال) وہ حل نہیں کرسکے۔امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جَمِيع مَا فِي هَذَا الْكتاب من الحَدِيث فَهُوَ مَعْمُول بِهِ وَقد أخد بِهِ بعض أهل الْعلم مَا خلا حديثين حَدِيث بن عَبَّاس أَن النَّبِي صلى اللّٰہ عَلَيْهِ وَسلم جمع بَين الظّهْر وَالْعصر بِالْمَدِينَةِ وَالْمغْرب وَالْعشَاء من غير خوف وَلَا سفر وَلَا مطر وَحَدِيث النَّبِي صلى اللّٰہ عَلَيْهِ وَسلم أَنه قَالَ إِذا شرب الْخمر فاجلدوه فَإِن عَاد فِي الرَّابِعَة فَاقْتُلُوهُ ‘‘ [1]
’’اس کتاب میں موجود تمام احادیث معمول بہ ہیں اوربعض اہل علم نے ان سے اخذ کیا ہے، سوائے دو احادیث کے، جن میں سے ایک حدیث سیدنا عبد اللہ بن عباس کی ہے جس میں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں خوف، بارش اور سفر کے بغیر ظہر اور عصر کو اور مغرب اور عشاء کو جمع کیا، اور دوسری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی شخص شراب پئے تو اسے کوڑے مارو ، اگر وہ چوتھی بار بھی پیے تو اسے قتل کر دو۔‘‘
مذکورہ دونوں معلول روایات کو امام البانی رحمہ اللہ نےصحیح قرار دیا ہے۔ [2]
اس سلسلہ میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ضعیف روایت کی ’اساسات‘ کے ضمن میں بھی اگر دیکھ لیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ صحیح روایت کی ’اساسی شرائط‘ بھی تین ہیں، کیونکہ ضعیف حدیث کے اسباب ماہرین فن کے ہاں یہ تین ہیں:
۱۔ عدالت راوی کے طعن کی وجہ سے روایت کا ضعیف ہونا۔
۲۔ ضبط راوی کے طعن کی وجہ سے روایت کا ضعیف ہونا۔
۳۔ انقطاع سندکے لحاظ سے روایت کا ضعیف ہونا۔
مزید برآں معلول اور شاذ احادیث کتبِ فن میں ’راوی کے ضبط میں طعن‘ کے تحت ہی ذکر کی جاتی ہیں۔
یعنی اگر روایت میں راوی وہم کا شکار ہو یا دیگر ثقات سے اختلاف کررہا ہو، تو ایسی روایت کو محدثین کرام رحمہم اللہ ’معلول‘ یا ’شاذ‘ کہتے ہیں۔ چنانچہ جب صحت حدیث کے لیے شرط لگا دی کہ اس میں راوی ’ضابط‘ ہونا چاہیے، تو اس میں از خود ’نفی شذوذ‘ اور’عدم علت‘ کا ذکر آگیا ۔ اس سے واضح ہوگیا کہ محدثین کرام رحمہم اللہ نے صحیح حدیث کی شرائط خمسہ میں سے آخری دو شرائط کو مکرر ذکر کیا ہے، تاکہ تحقیق روایت کے ضمن میں براہ راست متن سے
[1] الترمذي، أبو عيسى، محمد بن عيسى بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك، العلل الصغير: ص 736، تحقيق: أحمد محمد شاكر وآخرون، دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان
[2] جامع الترمذی، أبواب الصلاة، باب ما جاء في الجمع بين الصلاتين: 187، أبواب الحدود، بَابُ مَا جَاءَ مَنْ شَرِبَ الخَمْرَ فَاجْلِدُوهُ، وَمَنْ عَادَ فِي الرَّابِعَةِ فَاقْتُلُوهُ:1444