کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 38
يعلل بها المحدثون لا تجري على أصول الفقهاء. ‘‘[1]
’’حافظ ابن صلاح یرحمہ اللہ کا اپنی کتاب ’علوم الحدیث‘میں خبر مقبول کی تعریف کے ضمن میں مطلقاً دو شرائط یعنی ’’ولا شاذا ولامعللا‘‘کو زیادہ کرنا مذاہب فقہاء کے رو سےمحل اشکال ہے، کیونکہ متعدد علتیں ایسی ہیں جنہیں محدثین علل شمار کرتے ہیں جبکہ اصول فقہاء کے مطابق وہ علل شمار نہیں کی گئیں۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی طرح اِمام زین الدین عراقی یرحمہ اللہ بھی علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ (م702ھ) کی طرف سے تصریحاً فرماتے ہیں:’’إِنَّ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ زَادُوا ذَلِكَ فِي حَدِّ الصَّحِيحِ. ‘‘[2]
’’ صحت حدیث کی شرائط خمسہ میں سے’نفی شذوذ‘ اور’ نفی علل‘ کی یہ شرائط اصحاب الحدیث نے صحیح حدیث کی تعریف میں زیادہ کی ہیں۔‘‘
کبا ر ائمہ حدیث میں سے اِمام خطابی رحمہ اللہ (متوفیٰ 388ھ)بھی صراحت کے ساتھ’ نفی شذوذ‘ اور’ نفی علل‘ کی شروط کو صحیح حدیث کی شرط میں داخل نہیں فرماتے۔ [3]
اِمام سخاوی رحمہ اللہ امام زین الدین عراقی رحمہ اللہ کی نسبت سے بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں:
’’عَلَى أَنَّ شَيْخَنَا مَالَ إِلَى النِّزَاعِ فِي تَرْكِ تَسْمِيَةِ الشَّاذِّ صَحِيحًا، وَقَالَ: غَايَةُ مَافِيهِ رُجْحَانُ رِوَايَةٍ عَلَى أُخْرَى، وَالْمَرْجُوحِيَّةُ لَا تُنَافِي الصِّحَّةَ، وَأَكْثَرُ مَا فِيهِ أَنْ يَكُونَ هُنَاكَ صَحِيحٌ وَأَصَحُّ، فَيُعْمَلُ بِالرَّاجِحِ وَلَا يُعْمَلُ بِالْمَرْجُوحِ ; لَأَجْلِ مُعَارَضَتِهِ لَهُ، لَا لِكَوْنِهِ لَمْ تَصِحَّ طَرِيقُهُ. وَلَا يَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ الْحُكْمُ عَلَيْهِ بِالضَّعْفِ، وَإِنَّمَا غَايَتُهُ أَنْ يُتَوَقَّفَ عَنِ الْعَمَلِ بِهِ، وَيَتَأَيَّدُ بِمَنْ يَقُولُ: (صَحِيحٌ شَاذٌّ) كَمَا سَيَأْتِي فِي الْـمُعَلِّ. وَهَذَا كَمَا فِي النَّاسِخِ وَالْمَنْسُوخِ سَوَاءٌ، قَالَ: وَمَنْ تَأَمَّلَ الصَّحِيحَيْنِ، وَجَدَ فِيهِمَا أَمْثِلَةً مِنْ ذَلِكَ. ‘‘ [4]
’’ اس نزاع میں ہمارے شیخ کا میلان شاذحدیث کو ضعیف کہنے کی بجائے صحیح کہنے کی جانب ہے، آپ فرماتے ہیں کہ اس نزاع کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک روایت کو دوسری روایت پر راجح قرار دے دیا گیاہے، جبکہ کسی روایت کی مرجوحیت صحت کے منافی نہیں ہے۔ اس میں زیادہ سے زیادہ اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ دونوں متعارض روایتوں میں سے ایک صحیح اور دوسری اصح ہے۔ پس دو متعارض روایات میں راجح پر عمل کر لیا جائے اور مرجوح پر نہ کیا جائے، اور اس’صحیح روایت‘کا غیر معمول بہ ہونا محض تعارض کی وجہ سے ہے، ناکہ روایت کی عدم صحت کی وجہ سے۔ اس تعارض سے قطعاً یہ لازم نہیں آتا کہ ہم مرجوح روایت کو ضعیف کہیں،
[1] النکت على كتاب ابن الصلاح: 2/ 653۔654
[2] تدریب الراوی: 1/63
[3] فتح المغیث: 1/17
[4] أيضاً: 1/19