کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 37
أَوْ أَكْثَرُ عَدَدًا لَا يَسْتَلْزِمُ الضَّعْفَ، بَلْ يَكُونُ مِنْ بَابِ صَحِيحٍ وَأَصَحَّ. ‘‘ [1] ’’ اوریہ بات علماء کے مابین مشکل کا باعث بنی ہوئی ہےکہ جب اِسناد متصل ہو اور روایت کے راوی عادل وضابط ہوں تو گویا کہ علل ظاہرہ کی خود بخودنفی ہوگئی۔ جب اس حدیث سے علل کی نفی ہو گئی تو اسے صحیح قرار دینے میں کیا مانع ہے؟ صرف اس کے رواۃ میں سے کسی ایک راوی کا اپنے سے اوثق راوی یا اکثر راویوں کی مخالفت کرنا اس حدیث کے ضعف کو مستلزم نہیں ہے۔بلکہ یہ صحیح اور اصح کے قبیل سے ہے۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: ’’وَلَمْ يُرْوَ مَعَ ذَلِكَ عَنْ أَحَدٍ مِنْ أَئِمَّةِ الْحَدِيثِ اشْتِرَاطُ نَفْيِ الشُّذُوذِ الْمُعَبَّرِ عَنْهُ بِالْمُخَالَفَةِ. وَإِنَّمَا الْمَوْجُودُ مِنْ تَصَرُّفَاتِهِمْ تَقْدِيمُ بَعْضِ ذَلِكَ عَلَى بَعْضٍ فِي الصِّحَّةِ. وَأَمْثِلَةُ ذَلِكَ مَوْجُودَةٌ فِي الصَّحِيحَيْنِ وَغَيْرِهِمَا. ‘‘ [2] ’’متقدمین ائمہ حدیث میں سے کسی ایک سے بھی صحت حدیث کے لئے عدمِ شذوذکی شرط منقول نہیں ہے، جس میں ٹکراو اور مخالفت کی وجہ سے روایت کوضعیف تعبیر کیا گیا ہو۔ یہ شرط صرف حدیث کی صحت میں بعض احادیث کو بالمقابل متعارض حدیث پر مقدم (راجح)کرنے کے حوالے سے موجودہے۔ صحیحین وغیرہ میں اس نوع کی کئی امثلہ موجود ہیں ۔‘‘ اس کے باوجود اِمام بخاری رحمہ اللہ اور اِمام مسلم رحمہ اللہ نے ان روایات کو اپنی کتب میں درج کیا ہے اور ائمہ فن ان روایات کو ضعیف قرار دیے بغیر صحیحین کی ان روایات کی صحت پر بھی ماہرین فن کا اتفاق نقل کرتے ہیں۔ البتہ ان روایات پر توقف کرتے ہوئے ان کو قابل استدلال اور معمول بہا نہیں سمجھتے۔ اس کے بعد حافظ ابن حجر رحمہ اللہ خود ہی اپنی بات کے نتیجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ فَإِنْ قِيلَ: يَلْزَمُ أَنْ يُسَمَّى الْحَدِيثُ صَحِيحًا وَلَا يُعْمَلَ بِهِ - قُلْتُ: لَا مَانِعَ مِنْ ذَلِكَ، لَيْسَ كُلُّ صَحِيحٍ يُعْمَلُ بِهِ، بِدَلِيلِ الْمَنْسُوخِ. ‘‘ [3] ’’ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کی بات سے تو یہ لازم آتا ہے کہ بعض احادیث صحیحہ غیر معمول بہا بھی ہوتی ہیں، تو ہم جواب میں کہیں گے کہ بلا ریب وشک ایسا ہی ہے اور اس بات کو تسلیم کرنے میں مانع بھی کیا ہے کیونکہ ہر صحیح حدیث کے لیے ضروری بھی نہیں کہ وہ معمول بہا بھی ہو، جیسے منسوخ روایات وغیرہ۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اپنے مذکورہ دعویٰ کے حوالے سے ’النکت‘ میں اِمام ابن صلاح رحمہ اللہ کی خبر مقبول کی تعریف پرتبصرہ کرتے ہوئے واضح طور پر فرماتے ہیں: ’’ "ولا شاذا ولا معللا" فيه نظر على مقتضى مذاهب الفقهاء؛ فإن كثيرا من العلل التي
[1] تدریب الراوی:1/64 [2] تدریب الراوی: 1/64 [3] أيضاً: 1/65