کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 36
کہ فن حدیث میں شاذ اور ضعیف روایت میں اہل فن فرق کرتے ہیں، جس کی تفصیل اوپر گذر چکی ہے۔ مطلب چہارم: فن محدثین رحمہم اللہ اور فن فقہاء رحمہم اللہ کا فرق اسلامی علوم میں ’فقہ‘ اور ’حدیث‘ دو مستقل اورعلیحدہ علیحدہ فنون کا نام ہے۔ ان کے ماہر ین کو بھی مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ جو حضرات ’استنباط شریعت‘ اور فہم شریعت میں مہارت تامہ رکھتے ہوں ان کو فقہاء او ر جو حضرات ’خبر وتحقیق خبر‘ میں دسترس کاملہ رکھتے ہوں ان کو محدثین کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ فقہ اور حدیث چونکہ الگ الگ فنون کا نام ہے اسی لیے ان کے ماہرین کے میدان کار بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اپنے اصول، تعریفات، موضوع، مقصود، تصنیفات، اصطلاحات، ثبوت ودلالت،طبقات رجال، کتب مصادر اور دیگر کئی اعتبارات سے ان دونوں علوم کے مابین واضح فرق پایا جاتا ہے۔ اس موضوع پر ششماہی’رشد‘ کے سابقہ شمارہ میں راقم کا مکمل مضمون بعنوان :’’علم حدیث اور علم فقہ کا باہمی تعلق اور تقابل‘‘ شائع ہو چکا ہے۔[1] مطلب پنجم: محدثین کرام رحمہ اللہ کے ہاں قبول حدیث کی اساسی شرائط مذکورہ تمام تمہیدی مباحث سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ فن محدثین رحمہ اللہ کا محض موضوع ’ تمییز الصحیح من السقیم‘ ہے یعنی خبر صحیح اور خبر سقیم میں امتیاز کرنا، جبکہ’معمول بہ اخبار‘ کی بحث کا بنیادی تعلق اس سے بڑھ کر مزید اس بات سے بھی ہے کہ کون سی خبر قابل استدلال طور پر قبول ہوگی اور کون سی نہیں۔ واضح رہے کہ صحیح حدیث کی اساسی شرائط صرف تین ہیں، جبکہ’ خبرمعمول‘ یا بہ الفاظ دیگر خبر مقبول کی پانچ شرائط ہیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا موضوع ’صحت روایت ہے، ناکہ قابل استدلال اور معمول بہا روایات کا جمع کرنا۔ اسی وجہ سے اِمام بخاریرحمہ اللہ (م 256ھ) نے اپنی کتاب کا نام یوں تجویز فرمایا ہے: الجامع الصحیح المسند المختصر من أحادیث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وسننه وأیامه.... جاننا چاہیے کہ اِمام بخاری رحمہ اللہ اور اِمام مسلم رحمہ اللہ (متوفىٰ 261ھ)کی کتابوں میں موجود روایات کی صحت پر امت کا اتفاق ہوا ہے، ناکہ ان میں پائی جانے والی تمام روایات کے معمول بہا اور قابل استدلال ہونے پر۔ [2] اِمام سیوطی رحمہ اللہ’تدریب الراوی‘ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں: ’’ وَهُوَ مُشْكِلٌ؛ لِأَنَّ الْإِسْنَادَ إِذَا كَانَ مُتَّصِلًا وَرُوَاتُهُ كُلُّهُمْ عُدُولًا ضَابِطِينَ، فَقَدِ انْتَفَتْ عَنْهُ الْعِلَلُ الظَّاهِرَةُ. ثُمَّ إِذَا انْتَفَى كَوْنُهُ مَعْلُولًا فَمَا الْمَانِعُ مِنَ الْحُكْمِ بِصِحَّتِهِ؟ فَمُجَرَّدُ مُخَالَفَةِ أَحَدِ رُوَاتِهِ لِمَنْ هُوَ أَوْثَقُ مِنْهُ
[1] مدنی، حمزہ، حافظ، ڈاکٹر، علم حدیث اورعلم فقہ کا باہمی تعلق اور تقابل، ششماہی رشد، جولائی 2015ء، لاہور، جلد 11 شمارہ 4، ص 41 [2] النکت على كتاب ابن الصلاح: 1/372