کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 34
تحقیق اگرچہ اپنے وسطی مراحل کے اعتبار سے براہ راست متن ہی سے متعلق ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود انتہاء کے اعتبار سے یہ دونوں آخری اصول بھی درحقیقت سند ہی کی طرف راجع ہوتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ذیل میں اسی موضوع پر محدثین کرام اور اصولیین کے موقف کی روشنی میں یہ تجزیہ پیش کریں کہ نقدِ روایت کی اساسی شرائط صرف تین ہی ہیں۔ تاہم اس موضوع پر کچھ کہنے اور لکھنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ’فن حدیث‘ سے متعلقہ بعض اہم مطالب کواس موضوع کی تمہید کے طور پر پہلے ذکر کردیا جائے، تاکہ موضوع زیر بحث کو مکمل واضح کیا جاسکے۔
مطلب اول: معمول بہ صحیح روایت اور غیر معمول بہ صحیح روایت کا فرق
محدثین کر ام رحمہم اللہ صحیح حدیث کو دو اقسام میں تقسیم کرتے ہیں:
۱۔ معمول بہ صحیح روایت، یعنی قابل استدلال اور قابل عمل۔
۲۔ غیر معمول بہ صحیح روایت، یعنی ناقابل استدلال اور ناقابل عمل۔
غیر معمول بہ صحیح روایات کا اطلاق محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں درج ذیل قسم کی روایات پر کیا جاتا ہے:
۱۔ منسوخ روایت
۲۔ مرجو ح روایت
۳۔ متوقف علیہ روایت
جبکہ دیگر تمام قسم کی روایات یعنی جن روایات میں باہم تعارض نہ ہو، معمول بہاہوں گی۔ اِ<mfnote>مام شوکانی رحمہ اللہ (متوفیٰ1250ھ) إرشاد الفحول میں اس دعویٰ کہ صحیحین میں کوئی بھی روایت ضعیف نہیں ہے،کے متصل بعد فرماتے ہیں:
’’لانزاع في أن الخبر الواحد إذا وقع الاجماع على العمل فإنه یفید العلم لأن الاجماع علیه قد صیرة من المعلوم صدقه، ومن هذا القسم أحادیث الصحیحین فإن الأمة تلقت ما فیهما بالقبول ومن لم یعمل بالبعض من ذالك فقد أوّله والتاویل فرع القبول. ‘‘ [1]
’’ اہل فن کے ہاں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ جب خبر واحد کے معمول بہ ہونے پر اجماع ہوجائے تو وہ بھی خبر متواتر کی مثل علم کا فائدہ دیتی ہے، کیونکہ اجماع اس کے بارے میں متعین کردیتا ہے کہ وہ یقینی طور پرسچی خبر ہے۔ اسی قسم میں صحیحین کی احادیث ہیں، امتِ معصومہ نے ان دونوں کتابوں میں موجود تمام روایات
[1] تیسیر المصطلح الحدیث: ص 54۔60
[2] الشوکاني، محمد بن علي، إرشاد الفحول إلى تحقيق الحق من علم الأصول: 1/138، دار الكتاب العربي، الطبعة الأولى، 1999م