کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 33
بیان کرے تو دیکھیں گے اس واسطے کی صراحت ہے یا نہیں۔ اگر صراحت نہ ہو تو روایت غیرمتصل ہوگی۔مثلاً ابن مدینی رحمہ اللہ (متوفیٰ 234ھ) عن قیس بن أبی حازم کے بارے میں جو روایات ابن مدینی رحمہ اللہ نے قیس سے لی ہیں انہیں جمع کرلیا جائے۔ 10۔کثرت ممارست ؍فنی ذوق ماہر محدثین رحمہم اللہ میں کثرت مشق اور رجال کی معرفت اور احادیث کے مفاہیم پر مکمل عبور اور اللہ کی خاص عنایت کی بنا پرایک ذوق پیدا ہوجاتا ہےکہ جس کی بنا پر وہ روایت کے اندر علت کو جانچ لیتے ہیں۔ حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ (متوفیٰ 795ھ)نے ذکر فرمایا ہے: ’’حذاق النقاد من الحفاظ لکثرة ممارستهم للحدیث ومعرفتهم للرجال وأحادیث کل واحد منهم لهم فهم خاص یفهمون به إن هذا الحدیث یشبه حدیث فلان ولا یشبه حدیث فلان فیعللون الاحادیث بذلك. ‘‘[1] ’’نقاد حفاظِ حدیث کو حدیث سے کثرتِ ممارست ، معرفتِ رجال اور ان میں سے ہر ایک کی احادیث کی معرفت کی وجہ سے ایک خاص قسم کا فہم حاصل ہو جاتا ہے جس کے ذریعے وہ یہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ حدیث فلاں کی حدیث کے مشابہ ہے اور یہ فلاں کی حدیث کے مشابہ نہیں ، پس اس طرح سے وہ احادیث کو معلول قرار دیتے ہیں ۔ ‘‘ مثلاً اِمام ابن حبان رحمہ اللہ (متوفیٰ 354ھ) فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن عبد المالک رحمہ اللہ ، یزید بن رومان رحمہ اللہ (متوفیٰ 130ھ)اور اہل مدینہ العجائب کے بارے میں فرماتے ہیں اس کی حدیث ثقات کے مشابہ نہیں ہوسکتی۔ [2] نوٹ: اِمام حاکم رحمہ اللہ (متوفیٰ 405ھ)نے بھی ادراکِ علت کے سلسلے میں یہی دس قواعد بیان کئے ہیں، جن کی تلخیص امام سیوطی رحمہ اللہ نے کی ہے۔ [3] بحث ثالث: خبر مقبول میں شاذ اور علت کی شرائط کی نوعیت محدثین کرام رحمہم اللہ نے بلا شک وشبہ کسی حدیث کی صحت چانچنے کے لیے سند ومتن ہر دو کی ضروری تحقیق کا اہتمام فرمایا ہے، اور ان کی خبر مقبول کی تعریف میں موجود شرائط خمسہ سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن واضح رہنا چاہیے کہ ان دونوں اجزاء کو پرکھنے کے اسالیب ان کے ہاں سو فیصد ایک جیسے نہیں بلکہ خبرمیں راویوں کی بنیادی حیثیت کی وجہ سے راوی اور سند تو تحقیق میں ’اساس‘ کی حیثیت رکھتے ہیں، جبکہ شذوذ وعلت کی
[1] سنن أبي داؤد، كتاب البيوع، باب في الشفعة: 3514 [2] القيسراني، أبو الفضل محمد بن طاهر، تذكرة الحفاظ، أطرف الحديث كتاب المجروحين لابن حبان: 2/17، دار المصميعي للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الأولى، 1994م [3] تدریب الراوی:1/167۔169