کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 32
6۔ثقات کی مخالفت
حدیث ثقات کی روایت کے مخالف ہو۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ابن ابی حاتم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے دریافت کیا اور ابوزرعہ رحمہ اللہ سے بھی سوال کیا گیا کہ حدیث ’’حسین المروزی عن جریر ابن حازم عن أیوب عن عکرمة عن ابن عباس أن رجلا زوّج ابنته وهی کارهة ((ففرق النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بینهما.))‘‘کے بارے دریافت کیا ہے۔ والد صاحب نے کہا کہ یہ خطا ہے اس میں مخالفتِ ثقات ہے۔ ثقات کی روایت میں یوں ہے: عن أیوب عن عکرمة أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال ... الخ[1]، یہ روایت مرسل ہے۔ان ثقات میں ابن علیہ رحمہ اللہ (متوفیٰ 193 ھ) اور حماد بن زید رحمہ اللہ (متوفیٰ 179 ھ) وغیرہ کے ہاں یہ ہے کہ أن رجلاً تزوج ... الخ اور یہی درست ہے۔
7۔پوری جماعت کی مخالفت
راوی حدیث بیان کرنے میں اس قوم اور جماعت کی مخالفت کرے کہ جن میں وہ روایت مشہور ومعروف ہو۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ابن ابی حاتم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے ’’عن ثوری عن عبید اللّٰہ عن نافع عن ابن عمر قال کتب عمر إلى أمراء الاخبار أن لا یأخذ الجزیة إلا ممن جرت علیه المواصی. ‘‘
تو میرے والد نے کہا کہ ان میں سے بعض النافع عن أسلم بھی کہتے ہیں ، میں نے کہا کہ دونوں میں سے کون صحیح ہے؟ تو والد صاحب نے کہا کہ اگرچہ سفیان ثوری رحمہ اللہ حافظ ہیں لیکن اہل مدینہ نافع رحمہ اللہ (متوفیٰ 117ھ) کی حدیث کو اہل کوفہ کی حدیث سے زیادہ جانتے ہیں۔ [2]
8۔سیاق حدیث کا انکار
حدیث کا سیاق حدیث ہونے سے انکار کردے۔ جیسے معمر عن الزهری عن أبي سلمة عن جابر فرماتے ہیں : ’’إنما جعل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الشفعة في كل مالم یقسم فإذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة. ‘‘، اب یہاں وقعت الحدود وصرفت الطرق فلاشفعة ایک الگ اور مستقل کلام ہے۔ [3]
9۔واسطے کی صراحت
کسی راوی کے شیخ کی بیان کردہ تمام روایات کو جمع کرلیاجائے پھر اگر راوی ان روایات کے علاوہ کوئی روایت
[1] أيضاً: 4/60
[2] أيضاً: 1/10۔311
[3] العلل لابن أبي حاتم: 4/244