کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 29
یعرفون بها ما یجوز أن یکون من ألفاظ النبوة وما لایجوز. ‘‘[1] ’’حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کی کثرت مشق سے ایک خاص قسم کی نفسی کیفیت حاصل ہوتی ہے، اور ایسا مضبوط ملکہ پیدا ہوجاتا ہے کہ جس کے ذریعہ نبوت کے الفاظ کی معرفت ہوتی ہے کہ وہ کیا ہیں اور کیا نہیں۔‘‘ ’علت ‘ کی معرفت کے دس اصول اَحادیث کی اسانید و متون بسا اوقات بظاہر صحیح نظر آتے ہیں، لیکن بعض مخفی اور غامض اسباب ان کی صحت میں قادح ہوتے ہیں۔ انہی اسباب کی جانچ پڑتال کے لئے محدثین رحمہم اللہ نے چند ایک قواعد وضع کئے ہیں۔ جنہیں ادراکِ علت کے قواعد کہا جاتا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ یہ قواعد و ضوابط محدثین رحمہم اللہ نے جرح و نقد کے دقیق تجربات، فہم ثاقب، وسعتِ نظراور معرفتِ تام کے بعد ترتیب دیئے ہیں، لیکن علتوں کی پہچان سے عوام الناس تو کجا بعض اوقات اہلِ فن بھی قاصررہتے ہیں۔ اِمام ابوداؤد السجستانی رحمہ اللہ (متوفیٰ 275 ھ) اپنے رسالہ ’’إلى أهل مکة‘‘میں صراحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’أنه ضرر على العامة أن یکشف لهم کل ماکان من هذا الباب في مامضی من عیوب الحدیث. ‘‘ [2] ’’نقائص حدیث پر مبنی علل اگر عوام اور مبتدی طلبہ پر عیاں کردی جائیں تو وہ عموماً باعثِ ضرر ہوتی ہیں، کیونکہ ان کا علم سطحی ہوتا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ ماہر محدثین رحمہم اللہ کو احادیث میں ایک خاص ذوق اور مَلکہ حاصل ہوجاتا ہے جیسے صراف اصلی اور نقلی سکے میں فرق کرلیتا ہے، ایسے ہی وہ معلول اور غیرمعلول حدیث میں فرق کرلیتے ہیں۔ذیل میں معلول احادیث کے بارے محدثین کرام رحمہم اللہ کے اقوال جمع کرکے چندایک اصول بیان کیے جارہے ہیں کہ جن سے علم علل الحدیث کو منضبط صورت دی جاسکتی ہے۔ یہ کل دس اُصول ہیں: 1۔تمام اَسانید کو جمع کرنا ایک حدیث کی ہم معنی تمام روایات کو جمع کرلیا جائے، پھر ان کا مقارنہ اور موازنہ کیا جائے تو علت واضح ہوجاتی ہے۔
[1] نزهة النظر: ص 75 [2] السجستاني، أبو داؤد سليمان بن الأشعث، رسالة أبي داؤد إلى أهل مكة وغيرهم في وصف سننه: ص 31، دارالکتب العربية، بيروت