کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 28
’’اس کی سند اور متن دونوں میں غلطی موجود ہے۔ بلاشبہ اس روایت کو تو اِمام زہری رحمہ اللہ ( متوفیٰ 125 ھ) نے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے کہ ’’جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی اس نے نماز کو پا لیا۔ ‘‘اور جہاں تک ان الفاظ میں ’’من صلاة الجمعة‘‘ کا تعلق ہے تو یہ حدیث کا حصہ نہیں ہیں ۔ پس راوی کو سند اور متن دونوں میں وہم ہوا ہے ۔‘‘ [1] ’علم علل الحدیث‘کی دقت عللِ حدیث کی معرفت نہایت دقیق علم ہے ، یہ ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ماہرین کی تعداد بہت کم ہے اور صرف ماہر محدثین رحمہم اللہ ہی اس کے ماہر ہیں۔حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’إعلم أن معرفة علل الحدیث من أجل علوم الحدیث وأدقها وأشرفها وإنما یطلع بذلك أهل الحفظ والخبرة والفهم الثاقب. ‘‘[2] ’’ عللِ حدیث کی معرفت علومِ حدیث میں سب سے دقیق اور اشرف علم ہے ، یہ اسی کو حاصل ہوتا ہے جسے قوتِ حافظہ ، وسعت علم اور روشن فہم حاصل ہو ۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’وهو من أغمض أنواع علوم الحدیث وأدقها، ولا یقوم به إلا من رزقه اللّٰہ فهما ثاقبا وحفظا واسعا ومعرفة تامة بمراتب الرواة وملکة قویة بالأسانید والمتون. ‘‘[3] ’’یہ علم علومِ حدیث کا نہایت دقیق اور مشکل ترین علم ہے ، اس میں صرف اسی کو مہارت حاصل ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے روشن فہم، وسعت حفظ ، مراتبِ رواۃ کی معرفتِ تامہ اور اسانید ومتون کی معرفت میں قوی مَلکہ عطا فرمایا ہو ۔‘‘ علل‘کی شناخت کے لیے فنی ذوق کی ضرورت ہوتی ہے، اس حوالے سے علمائے حدیث کے مطابق جب تک تحقیق حدیث میں وسيع تجربہ موجود نہ ہو، یہ فنی ذوق حاصل نہیں ہوتا۔ امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ (متوفیٰ 702 ھ) فرماتے ہیں: ’’فحاصله یرجع إلى أنه حصلت لهم لکثرة محاولة ألفاظ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وهيئة نفسانیة وملکة قویة
[1] الرازی ابن أبي حاتم، أبو محمد عبد الرحمن بن محمد الحنظلی العلل لابن أبي حاتم: 2/432، مطابع الحميضي، الطبعة الأولى ، 2006ء [2] مقدمة ابن الصلاح :ص 187 [3] أيضاً: ص 52