کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 25
راوی کو مطلقاً ضعیف بنا دیتاہے، جبکہ آخری تین کا کثر ت سے و قوع راوی کو ضعیف بناتا ہے۔ کبھی کبھی وہم یا کبھی کبھی غفلت یا کبھی کبھی اختلافِ ثقات راوی کو ضعیف نہیں بناتا، بلکہ روایت کو ضعیف بناتا ہے۔ وہم یا غفلت جاننے کا عام ذریعہ محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں اختلاف ثقات یا اختلاف روایات ہی ہیں۔ چنانچہ جب کوئی محدث یہ کہتا ہے کہ یہ روایت فلاں عیوب کی وجہ سے، مثلاً اس کے راوی کو وہم ہوا ہے، ضعیف ہے، تو اس کا قطعی مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ روایت سنداً صحیح ہے، لیکن مختلف روایات میں تطبیق نہ ہوسکنے کی وجہ سے محدث نے اس روایت کو راوی کا وہم قرار دیا ہے، چنانچہ راوی پروہم وغیرہ کا الزام درحقیقت ضعف سند یا ضعفِ راوی کی وجہ سے نہیں بلکہ محدث کی اپنی نارسائی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی دوسرا محدث دونوں روایات جمع کردے تو وہم کا یہ دعویٰ ختم ہوجاتا ہے۔
۳۔ اِمام ترمذیرحمہ اللہ (متوفیٰ 279 ھ)نے’علل الحدیث‘ پر جو کتاب تصنیف فرمائی ہے، اس میں وہ ’معلول روایت‘ کو غیر معمول بہا صحیح روایت کی قسم میں شمار کرتے ہیں۔[1] اور جیساکہ معلوم ہے کہ مرجوح یا منسوخ روایت غیر معمول بہا صحیح روایات کی اقسام ہیں، اسی لیے اِمام ترمذیرحمہ اللہ نے اپنی تعبیرات میں نسخ تک کو ’علت‘ کا نام دیا ہے۔ [2]اِمام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’العِلَل‘ میں متقدمین أئمہ کے ہاں جو روایات معلول تھیں وہ سب جمع کردی ہیں ۔اور پھر جن اشکالات کی وجہ سے محدثین کرام رحمہم اللہ نے ان روایات کو معلول کہا تھا، ان کو حل فرمایا ہے۔ اِمام ترمذی رحمہ اللہ کے بقول صرف دو روایات کتب حدیث میں ایسی ہیں جن کی علت (اِشکال) وہ حل نہیں کرسکے۔[3] ان میں سے پہلی روایت ہے:
(( ومن شرب الخمر رابعا فاقتلوه ))
’’جو چوتھی مرتبہ شراب پیے اسے قتل کر دو۔‘‘
جبکہ دوسری روایت ہے :
(( جمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بلا سفر و مطر ومرض ))
’’ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر ، بارش اور بیماری کے بغیر بھی دو نمازوں کو جمع کیا ہے ۔‘‘
دلچسپ امر یہ ہے کہ خود اِمام ترمذی رحمہ اللہ نے ان دونوں روایات کو اپنی ’جامع سنن‘ میں حسن، صحیح قرار دیا ہے۔ اور دوسری طرف جن دو روایات کے اشکال کو اِمام ترمذی رحمہ اللہ بھی حل نہیں کرپائے،دیگر علماء نے ان
[1] الحنبلي، زين الدين عبد الرحمن بن أحمد، شرح علل الترمذی: 1/49، مكتبة المنار، الأردن، الطبعة الأولى، 1987م
[2] تیسیر المصطلح الحديث: ص126
[3] جامع الترمذی، أبواب المناقب، باب في فضل الشام واليمن: 6/230