کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 23
ہونے والی ہر روایت کو محدثین کرام رحمہم اللہ’معلول‘ کہہ دیتے ہیں۔ ۲۔ ’علت‘ کی اصطلاح کو بسا اوقات محدثین رحمہم اللہ غیر اصطلاحی معنوں میں بھی استعمال کرتے ہیں، چنانچہ وہ نہ شے مخفی ہوتی ہے اور نہ قادح مثلاً راویوں کا ایسا اختلاف جو صحت حدیث میں قدح کا باعث نہیں ہوتا، جیسے وہ حدیث جسے ثقہ موصول روایت کرتا ہے،اسے مرسل روایت کردینا۔ اس بنیاد پر بعض محدثین کرام رحمہم اللہ نے یہ جملہ بولا ہے: ’’من الحدیث الصحیح ما هو صحیح معلل. ‘‘[1] ۳۔ ’حدیث معلول‘ کی عام تعریف جو کتب اصول میں موجود ہے وہ یہ ہے کہ جس روایت میں کسی ثقہ راوی کی طرف وہم کی نسبت کی جائے، اس روایت کو’ معلول‘ کہتے ہیں۔ [2] ایک چیز کی گہرائی میں اترا جائے تو بسا اوقات ایک چیز جو بظاہربے عیب نظر آتی ہے، درحقیقت وہ عیب دار ہوتی ہے۔ لیکن جب کسی چیز کی گہرائی میں اترا جاتا ہے تو مسئلہ کے عمیق ہونے کی وجہ سے علماء میں اختلاف نظر ایک عام بات ہے۔چنانچہ جن کی نظر میں وہ مخفی چیز باعث اشکال ہوتی ہے ان کی نظر میں وہ روایت معلول ہوتی ہے اور جن کی نظر میں وہ اشکال نہیں ہوتا یا اشکال کا حل سامنے ہوتا ہے ان کی نظر میں وہ روایت معلول نہیں ہوتی۔ مزید واضح ہونا چاہیے کہ راوی کے بارے میں وہم کا فیصلہ عموماً اس قسم کے امور سے پتہ چلتا ہے، جیسے متنِ حدیث کا صریحی دینی معلومات سے متعارض ہوجانا۔ لیکن جو حدیث صحت سند سے ثابت ہوجائے، پھر اس میں اس قسم کا عیب پایا جائے، تو اس کے بارے میں عام امکان یہی ہے کہ اگر ایک محدث کو ایک شے محلِ اشکال معلوم ہوتی ہے تو دوسرا کوئی محدث بہرحال اسے حل کردے گا۔ چنانچہ سمجھنا چاہئے کہ روایات میں تعارض کی بحث ایسی نہیں کہ اس کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ اس حدیث کے ضعف کی وجہ محض ’ٹکراؤ‘ ہے، ہم آگے چل کر واضح کریں گے کہ عام طور پر اصولیین’ علّت‘ اور ’شاذ‘ کی بحث کو قبول حدیث کی شرائط میں اضافی تسلیم کرتے ہیں۔ البتہ بسااوقات جب یہ حتمی طور پر ثابت ہوجاتا ہے کہ روایت میں ثقہ راوی سے بشری تقاضا کے مطابق واقعتا غلطی ہوگئی ہے اور روایت میں اشکال اسی وجہ سے پیدا ہو رہا ہےتو پھر اس غلطی(وہم) کی نسبت راوی کی طرف کیے جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔ الغرض ’علل الحدیث‘ فن حدیث کی گہری ترین بحث ہے اور اس کے ماہرین کبار محدثین رحمہم اللہ ہوتے ہیں۔ اس لئے فن حدیث کی معتبر کتابوں میں اس بحث کو کافی نکھار سے پڑھنے اور واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
[1] أيضاً: ص99 [2] فتح المغيث: 1/273؛ تیسیر مصطلح الحدیث: ص98