کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 22
بحث ثانی:علت فی المتن
محدثین کرام رحمہم اللہ نے کسی حدیث پر حکم لگاتے ہوئے سند کوبنیادی حیثیت دی ہے اور اس کے لیے خیرالقرون رحمہم اللہ سے باقاعدہ اصول وضوابط اخذ کرکے مدون فرمائے ہیں۔ ان اصول وضوابط کے اطلاقات کے لیے جہاں محدثین رحمہم اللہ نے روایت کی ظاہر ی تحقیق کے ضوابط مدون فرمائے، وہاں اس کے ساتھ ساتھ روایت میں پائے جانے والے مخفی عیوب ، جیسے ثقہ روای کو وہم لگ جانا اور اس نوع کی مختلف انواع وغیرہ پر بے شمار بحثیں پیش فرمائی ہیں۔ان مخفی عیوب کا سند کی طرح متن حدیث میں بھی کثرت سے وجود نظر آتا ہے۔ ایک محقق کو جہاں روایت کی تحقیق میں ظاہری بیماریوں کی معرفت ہونی چاہئے، وہاں روایت سے متعلقہ مخفی عیوب کا بھی عمیق مطالعہ ہونا چاہئے، ورنہ ایسا محقق سطحی نظر رکھنے والا شخص شمار ہوگا۔ اس بحث کو محدثین کرام رحمہم اللہ نے ظاہری بیماریوں کے بالمقابل زیادہ اہمیت دی ہے، کیونکہ یہ بیماریاں عام طور پر ثقہ راوی سے وہم کی وجہ سے صادر ہوتی ہیں اور وہم ایک نہایت حساس بحث ہے، کیونکہ وہم کو وہم کے مطابق مقام دینا خود کافی محتاط چیز ہے، جس میں سطحی نظر رکھنے والا ’وہم‘ کو جب ’ظن‘ کی اصطلاح کی مانند استعمال کرنا شروع کردیتا ہے تو اس وجہ سے کئی قسم کے پیچیدہ مسائل جنم لیتے ہیں اور ایسے شخص کو ماہرین نفسیات وہمی قرار دیتے ہیں، جو کہ ایک مرض ہے۔ چنانچہ اس دقیق بحث کے ماہر عام محدثین کے بجائے جہابذہ محدثینرحمہم اللہ ہی ہوتے ہیں۔
کسی خبر کو قبول کرنے کے لیے محدثین کرامرحمہم اللہ کے ہاں پانچ شرائط ہیں۔ ان شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ روایت جہاں ظاہر ی عیوب سے پاک ہو وہاں مخفی عیوب سے بھی پاک ہونی چاہیے۔ اسے محدثین کرام رحمہم اللہ اپنی تعبیرات میں ’ نفی علت‘ کی شرط سے پیش کرتے ہیں۔محدثین کرامرحمہم اللہ کے ہاں ’علت‘ کی تعریف میں دو چیزیں شامل ہیں:
۱۔ علت ایک مخفی عیب ہوتا ہے۔
۲۔ اور وہ قادح بھی ہوتا ہے۔
اگر ان دونوں چیزوں میں سے کوئی ایک شے بھی نہ پائی جائے تو وہ علت ،اصطلاحی علت نہیں کہلائے گی۔[1] معلول حدیث کسے کہتے ہیں؟اس بارے میں محدثین کرام رحمہم اللہ کے تین قول ہیں:
۱۔ محدثین رحمہم اللہ بسا اوقات لفظ ’علت‘ کو انتہائی عام معنی میں ہر قسم کے عیب کے لیے استعمال کرتے ہیں،چنانچہ اس تعبیر کے مطابق ’کذب راوی‘، ’غفلتِ راوی‘ یا’سوئےحفظ‘ وغیرہ کی وجہ سے ضعیف
[1] القاري، علي بن سلطان محمد، شرح نخبة الفكر في مصطلحات أهل الأثر:1/459، دار الأرقم، بيروت؛ تيسير مصطلح الحديث: ص 99