کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 21
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں پچھنے لگوائے ۔‘‘
اس حدیث کے متن میں لفظ ’’احتجم‘‘(پچھنے لگوائے ) میں تصحیف ہوئی ہے ۔ یہ اصل میں احتجر(گود میں لیا) تھا یعنی آخر میں میم کی بجائے راء تھی مگر ابن لَھِیعَہ رحمہ اللہ (متوفیٰ 174 ھ) راوی نے اس میں تصحیف کر کے ’’احتجر ‘‘ سے ’’احتجم ‘‘ بنا دیا ۔ [1]
’محرف‘ کی مثال یہ ہے:
’’بلغنا عن الدار قطنی في حدیث أبي سفیان عن جابر قال: رمی أبي یوم الأحزاب على أکحله فکواه رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم. ‘‘ [2]
’’ جنگ احزاب میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے بازو کی ایک رَگ میں تیر لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں داغ لگایا ۔‘‘
غندررحمہ اللہ (متوفیٰ 293ھ) نے اسے روایت کرتے ہوئے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے بجائے ’ابی ‘یعنی میرا باپ کہا ہے حالانکہ جابر رضی اللہ عنہ کے والد تو اس جنگ سے پہلے جنگ اُحد میں ہی شہید ہو چکے تھے ۔
نوٹ: ’شاذ‘ حدیث کی اہل علم کے ہاں دو صورتیں ہیں:
۱۔ دو مختلف روایات صحیحہ میں ایسا تعارض جو جمع نہ ہوسکنے کی صورت میں اِدراج، قلب، اضطراب یا تصحیف وغیرہ پر اس لیےمحمول کردیا جائے کہ ایک روایت کے راوی چونکہ زیادہ ثقہ یا تعداد میں کثیر ہیں، چنانچہ اس روایت کو دوسری صحیح روایت پر ترجیح دے دی جائے۔ اس مرجوح روایت کو محدثین کرامرحمہم اللہ ’شاذ‘ اور راجح روایت کو ’محفوظ‘ کہتے ہیں۔ اس صورت کی رو سے ’شاذ‘ کی بحث کا تعلق معمول بہ یا غیر معمول بہ روایت کی بحث سے ہوگا، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ البتہ اگر روایات صحیحہ کا باہمی تعارض ویسے ہی حل ہوجائے تو یہ بحث شاذ ومحفوظ کی رہے گی ہی نہیں۔
۲۔ ’شاذ ‘حدیث کی ایک خاص صورت یہ بھی ہے کہ ایک ہی استاد سے کسی شے کو اخذ کرنے یا کسی واقعہ کے تحمل کے بعد اسے آگے نقل کرنے میں اگر مختلف مخبرین کا باہم خبروں میں اختلاف ہو جائے تو ان میں سے ثقہ راوی کی خبر چھوڑ کر اوثق یا ثقات کی رائے کو قبول کرلیا جائے۔ اس خاص صورت کی رو سے سے بحث ’شاذ ومحفوظ‘ کا تعلق ’استدراکات‘ کی بحث سے ہوگا بلکہ اس قسم کے راویوں کے اختلاف کو عام محدثینرحمہم اللہ نے ’شاذ ومحفوظ‘ کی بجائے اصطلاحی نام دیا ہی ’استدراکات‘ کا ہے۔ اس بحث کا خالص تعلق فن محدثین سے ہے، جبکہ پہلی صورت کا کافی سارا تعلق فن فقہاءکی بحث سے بھی ہے۔
[1] الدمشقي، طاهر بن صالح، توجیه النظر إلى أصول الأثر: 1/441، مكتبة المطبوعات الإسلامية، حلب، الطبعة الأولى، 1996م
[2] مقدمة ابن الصلاح : ص 164