کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 17
اس روایت میں ’’وهو التعبد‘‘ کے لفظ مدرج ہیں اور یہ اِمام زہری رحمہ اللہ (متوفیٰ 125 ھ)کا کلام ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (متوفیٰ 852 ھ)نے یہ وضاحت فرمائی ہے اور علامہ طیبی رحمہ اللہ (متوفیٰ 743 ھ)نے بھی یہی ذکر فرمایا ہے ۔ [1]
مقلوب المتن
’قلب‘ تبدیلی کو کہتے ہیں۔ اگر راوی غلطی سے متن میں کوئی تبدیلی کر دے تو اسے مقلوب المتن کہتے ہیں۔ ڈاکٹر نور الدین عترنے اس کی ایک جامع تعریف یوں کی ہے:
’’هو الحدیث الذی ابدل فیه راویه شیئا بآخر في السند أو المتن سهوا أو عمدا. ‘‘[2]
’’مقلوب اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں راوی سند یا متن میں بھول کر یا جان بوجھ کر کوئی چیز تبدیل کر دے ۔‘‘
اس کی مثال یہ روایت ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، قَالَ: ((سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللّٰہ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: الْإِمَامُ الْعَادِلُ، وَشَابٌّ نَشَأَ بِعِبَادَةِ اللّٰہ ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْـمَسَاجِدِ، وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللّٰہ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ، وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللّٰہ ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لَا تَعْلَمَ يَمِينُهُ مَا تُنْفِقُ شِمَالُهُ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللّٰہ خَالِيًا، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ)) [3]
’’یعنی سات آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اس روز اپنے سائے میں سے سایہ عطا فرمائیں گے جب اس کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہیں ہو گا ۔ عادل حکمران ، وہ نوجوان جس نے اللہ کی عبادت میں پرورش پائی ، وہ شخص جس کا دل مسجد کے ساتھ معلق رہتا ہے ، ایسے دو آدمی جو اللہ کے لیے آپس میں محبت کرتے ہیں وہ اسی پر اکٹھے ہوتے ہیں اور اسی پر الگ ہوتے ہیں ، وہ شخص جسے منصب وجمال والی خاتون برائی کی دعوت دے مگر وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ، وہ شخص جس نے اس قدر چھپا کر صدقہ کیا کہ اس کے دائیں ہاتھ کو بھی علم نہ ہوا کہ بائیں نے کیا خرچ کیا ہے اور ایسا شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔‘‘
اس روایت کے متن میں راوی نے غلطی سے دائیں ہاتھ کی جگہ بائیں کا ذکر کر دیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ صحیح
[1] العسقلاني، أحمد بن علي بن حجر، فتح الباری شرح صحيح البخاري:1/23، دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الثالثة، 2000م
[2] الحلبي، نورالدين محمدعتر، منهج النقد في علوم الحديث: 1/ 435، دار الفكر، دمشق، الطبعة الثالثة، 1997م
[3] النيسابوري، مسلم بن الحجاج القشيري، صحیح مسلم، كتاب الزكوٰة، باب فضل إخفاء الصدقة: 1031، دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الأولى، 1998م