کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 16
’’یعنی وضوء مکمل کرو ، (خشک) ٹخنوں کے لیے آگ سے ہلاکت ہے ۔‘‘
اس روایت کا پہلا حصہ یعنی ’’أسبغوا الوضوء ‘‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں بلکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا کلام ہے، جو راوی ابوقطن (متوفیٰ198 ھ) اور شبابہ(متوفیٰ 206 ھ) نے غلطی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا ہے ۔ اس بات کا یوں پتہ چلا کہ دیگر ثقہ روایوں نے ’’أسبغوا الوضوء ‘‘کے الفاظ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف اور ((ویل للأعقاب من النار)) کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیے ہیں جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے:
عن آدم عن شعبة عن محمد بن زیاد عن أبي هریرة قال: ((أسبغوا الوضوء)) فان أبا القاسم صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((ویل للأعقاب من النار)) [1]
آدم بن ابی ایاسرحمہ اللہ (متوفیٰ 221 ھ) کے علاوہ یہ روایت ابن جریر (متوفیٰ 206 ھ) ، عاصم بن علی (متوفیٰ221 ھ)، علی بن الجعد(متوفیٰ 230 ھ) ، غندر(متوفیٰ 193 ھ)، ہشیم (متوفیٰ 183 ھ)، یزید بن زریع(متوفیٰ 182 ھ) ، نضر بن شمیل(متوفیٰ 203ھ) ، وکیع (متوفیٰ 197 ھ)، عیسیٰ بن یونس(متوفیٰ 187 ھ) اور معاذ بن معاذ(متوفیٰ 196 ھ) رحمہم اللہ وغیرہ نے بھی شعبہ رحمہ اللہ (متوفیٰ 160 ھ)سے بیان کی ہے اور سب نے اس کے پہلے حصے کو ابوہریرة رضی اللہ عنہ کا ہی کلام کہا ہے ۔ [2]
اس کی ایک دوسری مثال یہ ہے:
عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ أَنَّهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مِنَ الوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لاَ يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الخَلاَءُ، وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ - وَهُوَ التَّعَبُّدُ - اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ العَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ [3]
’’اِمام زہری رحمہ اللہ (متوفیٰ 124ھ) عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے اور وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا ابتدائی دور سچے خوابوں سے شروع ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صحیح اور سچا ثابت ہوتا۔ پھر آپ تنہائی پسند ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غارِ حراء میں خلوت نشینی اختیار فرمائی ، آپ وہاں ’’تحنث ‘‘ یعنی عبادت میں کئی کئی راتیں مشغول رہتے ، اس سے پہلے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کی طرف آتے۔‘‘
[1] البخاري، محمد بن إسماعيل، صحیح البخاري، كتاب الوضوء، باب غسل الأعقاب: 165، دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الثانية، 1999م
[2] العراقي، زين الدين عبد الرحيم، التقییدوالإیضاح: ص128، دار العلوم حقانيه، اكوره ختك، باكستان، الطبعة الأولى، 1969م
[3] صحیح البخاری، كتاب بدء الوحي، باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول اللّٰه صلی اللّٰہ علیہ وسلم : 3