کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 15
’’مدرج المتن یہ ہے کہ متنِ حدیث میں ایسا کلام واقع ہو جو حقیقت میں اس کا حصہ نہ ہو ۔ ادراج کبھی حدیث کی ابتدا میں ، کبھی درمیان میں اور کبھی آخر میں واقع ہوتا ہے اور زیادہ آخر میں ہی ہوتا ہے، کیونکہ ادراج ایک جملہ پر دوسرے جملہ کے عطف کے ذریعے، یا صحابہ وتابعین کے موقوف کلام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرفوع کلام کے ساتھ بلافصل ملا دینے سے واقع ہوتا ہے ، اسی کو مدرج المتن کہتے ہیں ۔‘‘
حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ (متوفیٰ 643 ھ) نے مدرج المتن کی وضاحت کرتے ہوئے نقل فرمایا ہے:
’’منها ما أدرج في حدیث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من کلام بعض رواته بأن یذکر الصحابي أو من بعده عقیب ما یرویه من الحدیث کلاما من عند نفسه فیرویه من بعده موصولا بالحدیث غیر فاصل بینهما بذکر قائله فیلتبس الأمر فیه على من لا یعلم حقیقة الحال ویتوهم أن الجمیع عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم . ‘‘[1]
’’ادراج کی ایک قسم وہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں کسی راوی کا کلام شامل کردیا جائے ۔ ایسا یوں ہوتا ہے کہ راوی حدیث روایت کرنے کے بعد اپنا کلام ذکر کرے۔پھر صحابی یا تابعی کا ذکر کرے اور اس کے بعد بلافصل قائل کے ذکر کے بغیر باقی حدیث موصول بیان کر دے ۔ اس طرح اس شخص پر معاملہ خلط ملط ہو جاتا ہے جو حقیقتِ حال سے واقف نہیں۔ اور وہ اس تمام کو ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سمجھ لیتا ہے ۔‘‘
علامہ طیبی رحمہ اللہ (متوفیٰ 743 ھ) نے مدرج المتن کے متعلق فرمایا ہے:
’’أحدها ما أدرج في الحدیث من کلام بعض رواته فیرویه من بعده متصلا یتوهم أنه من الحدیث. ‘‘[2]
’’ادراج کی ایک قسم یہ ہے کہ حدیث میں کسی راوی کا کلام شامل کر دیا جائے اور اس کے بعد والا راوی اسے متصل بیان کر دے ، جس سے یہ وہم ہو کہ یہ حدیث کا حصہ ہی ہے ۔‘‘
اس کی مثال یہ حدیث ہے :
روی الخطیب من طریق أبي قطن وشبابة عن شعبة عن محمد ابن زیاد عن أبي هریرة قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ((أسبغوا الوضوء، ویل للأعقاب من النار)) [3]
[1] ابن الصلاح، عثمان بن عبد الرحمن، مقدمة ابن الصلاح: 1/95، دار الفكر، سوريا، الطبعة الأولىٰ، 1986م
[2] الطيبي، الحسين بن محمد، الخلاصة في معرفة الحديث: 1/53، المكتبة الإسلامية للنشر والتوزيع، الطعبة الأولى، 2009م
[3] البغدادي، أبو بكر أحمد بن علي، الفصل للوصل المدرج في النقل: 1/23، الناشر دار الهجرة، الطبعة الأولى، 1997م