کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 14
’’ الفاظ حدیث کی زیادتی یا کمی میں ثقہ راوی، ثقہ جماعت کی مخالفت کرے اور دونوں کے درمیان جمع ممکن نہ ہو۔ یہ مخالفت کبھی سند اور کبھی متن میں ہوتی ہے۔‘‘
حافظ ابن حجررحمہ اللہ (متوفیٰ 852 ھ) فرماتے ہیں:
’’ شذوذ یہ ہے کہ ثقہ راوی اپنے سے زیادہ ثقہ یا ثقات کی ایک جماعت کی مخالفت کرے ۔ اوثق یا ثقات کی روایت کو محدثین عظامرحمہم اللہ’محفوظ‘ اور ثقہ کی روایت کو ’شاذ‘ کہتے ہیں۔‘‘ [1]
’شاذ‘ روایت کی تعریفات اگر چہ اس کے علاوہ بھی کی گئی ہیں، البتہ راجح تعریف ’شاذ‘ کی وہی ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔ اسی تعریف کو حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے ترجیح دی ہے۔[2] ’شاذ ‘ کی دو صورتیں ہوتی ہیں:
1۔سند میں شذوذ 2۔ متن میں شذوذ
’شاذ ‘ کی بحث کو محدثین کرامرحمہم اللہ’مخالفت الثقات‘ کی بحث کے ضمن میں لاتے ہیں، کیونکہ ’ثقہ‘ اور ’اوثق‘ یا ’ثقہ‘ اور ’ثقات‘ کے اختلاف کے موضوع کا تعلق ’مخالفت الثقات‘ سے ہے۔ [3]
’مخالفۃ الثقات ‘کے لحاظ سے شذوذ کی اقسام
شذوذ فی المتن کے اعتبار سے مخالفت الثقات کی چار قسمیں ہیں:
1۔ مدرج المتن 2۔ مقلوب المتن 3۔ اضطراب الحدیث 4۔ مصحف المتن
ان تمام کی تفصیل درج ذیل ہے ۔
مدرج المتن
لفظ’ادراج‘ حدیث میں ایسے اضافے کو کہتے ہیں جو حقیقت میں حدیث کا حصہ نہ ہو ۔ اگر یہ متن میں واقع ہو تو اسے مدرج المتن کہتے ہیں ۔حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے مدرج المتن کی تعریف ان الفاظ میں ذکر فرمائی ہے:
’’وأما مدرج المتن فهو أن یقع في المتن کلام لیس منه فتارة یکون في أوله، وتارة في أثناه وتارة في آخره، وهو الأکثر لأنه یقع بعطف جملة، على جملة أو بدمج موقوف من کلام الصحابة، أو من بعدهم بمرفوع من کلام النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم من غیر فصل، فهذا هو مدرج المتن. ‘‘[4]
[1] العسقلاني، أحمد بن علي بن حجر، شرح نخبة الفكر: ص37، مؤسسة مناهل العرفان، بيروت، الطبعة الثانية، 1990م
[2] أیضاً: ص37
[3] فتح المغيث: 1/244؛ الطحان، أبو حفص محمود بن أحمد، تیسیر مصطلح الحدیث: ص101۔118، مكتبة المعارف للنشر والتوزيع، الطبعة العاشرة، 2004م
[4] العسقلاني،أحمد بن علي بن حجر، نزهةالنظر:1/227، مطبعة سفير بالرياض، الطبعة الأولى، 1422ھ