کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 13
۲۔ اَئمہ قراء ات کے نزدیک اسے تلقّی بالقبول اور شہرتِ عامہ کا درجہ حاصل نہ ہو۔ اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’قراء ات شاذہ‘ کا اطلاق ان تمام قراء ات پر ہوتا ہے جو متواتر کے علاوہ ہیں یا جن کو ائمہ قراء ت کے ہاں استفاضہ( تلقّی بالقبول ) کی حیثیت حاصل نہیں۔ مذکورہ بات سے ثابت ہوا کہ ماہرین کے ہاں ’ضعیف قراء ت‘ اور’ شاذ قراء ت‘ میں فرق ہے۔’ ضعیف قراءت‘ وہ ہے جو غیر ثابت شدہ ہو اور ’شاذ‘ وہ ہے جو ثابت شدہ تو ہو لیکن تواتر یا استفاضہ کی شرط کے معدوم ہونے کی بنا پر بطورِ قرآن قبول نہ کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ’ شاذقراء ت‘ سے بطور ِحدیث علماء استدلال کرتے ہیں، جبکہ ’ضعیف قراء ت‘ سے استدلال نہ کرنے پر ائمہ کا اتفاق ہے ۔[1] فن حدیث میں شاذ روایت حدیث میں ثقہ راوی اپنے سے زیادہ ثقہ یا ثقات کی مخالفت کرے تو اوثق یا ثقات کی روایت کو ثقہ کی روایت کے بالمقابل محدثین عظامرحمہم اللہ ’محفوظ‘ اور ثقہ کی روایت کو ’شاذ‘ کہتے ہیں۔ [2]واضح ہواکہ فن حدیث میں بھی ’شاذ‘ ضعیف کو نہیں کہتے، کیونکہ اگرصحیح اور دوسری ضعیف روایات باہم ٹکرا جائیں تو یہ ’مختلف الحدیث‘یا ’مخالفت الثقات‘ کی بحث نہیں، بلکہ اصطلاحات محدثین رحمہم ا للہ کی رو سے ضعیف کو ’المنکر‘ اور صحیح کو ’المعروف‘ کی متوازی اصطلاحات سے بیان کیا جاتا ہے۔ البتہ جب دو صحیح روایتیں باہم ٹکرا جائیں تو تعارض ہونے کی بنا پر جمع ونسخ معلوم نہ ہونے کی صورت میں اکثریت کی بات کو اقلیت پر ترجیح دینے یا ثقہ کے بالمقابل اوثق کو ترجیح دینےسے ثقہ کی روایت ’شاذ‘ کہلاتی ہے۔ پس ’شاذ‘ روایت سنداًصحیح ہوتی ہے لیکن ’ثقات‘ یا ’اوثق‘ کی روایت کے بالمقابل منفرد، قلیل، نادر ہونے کی وجہ سے متروک العمل ہوجاتی ہے۔ [3] المختصر ہم کہہ سکتے ہیں کہ فن حدیث میں ’شاذ‘ اور ’ضعیف‘ روایت میں اہل فن فرق کرتے ہیں۔ ’شاذ ‘کی حقیقت واضح ہوجانے کے بعد اب ہم ’شاذ حدیث‘کی فن حدیث سے متعلقہ عام تفصیلات پیش کرتے ہیں۔ ’شاذ روایت‘کی تعریف اِمام سخاوی رحمہ اللہ ( متوفیٰ 902ھ) شاذ کی تعریف میں رقم طراز ہیں: ’’ما یخالف الراوی الثقة فیه بالزیادة أو النقص في السند أو في المتن الملإ أی الجماعة الثقات من الناس بحیث لا یمکن الجمع بینهما. ‘‘[4]
[1] اسلم صد یق ،محمد ،قراء ات شاذہ شرعی حیثیت اور تفسیر وفقہ پر اثرات : ص 189 ۔238، شیخ زاید اسلامک سنٹر ،لاہور ،2006ء [2] البغدادي، أبو بكر أحمد بن علي، الکفایة في علم الرواية: ص141، المكتبة العلمية ، المدينة المنورة، س ن [3] العسقلاني، أحمد بن علي بن حجر، النکت على كتاب ابن الصلاح: 2/252۔254، المملكة العربية السعودية، الطبعة الأولى، 1984م [4] السخاوي، أبي عبد اللّٰہ محمد بن عبد الرحمٰن، فتح المغیث:1/244، مكتبة السنة، مصر، الطبعة الأولى، 2003م