کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 122
معاشرتی اعتبار سے ان کی شخصیت کی تکمیل ہوتی ہو۔
خلاصہ بحث
اقوا مِ عالم کے معاشرتی تاریخی جائزے سے عورت کی ہونے والی تذلیل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ جس کے وجود کو بحیثیت انسان ہی تسلیم کرنے سے جومعاشرہ انکاری ہو وہاں عورت کواُس کے جائز حقوق کب ادا کیے جاتے ہونگے؟ یونانی، رومی، یہودی، عیسائی،ہندو اور قبل از اسلام عرب معاشرت عورت کو فحاشی، قتل، شیطانیت، ستیَ اور زندہ درگور کرنے جیسے دھبوّں سے داغدار ہے ۔ قرآن وسنت کے آفاقی احکام کے مطابق عورت اپنے وجود میں مردوں کی نظیر ہے ۔اللہ پاک کااپنی محبت کی مثال کے لیے ماں کی محبت سے موازنہ کرنا،سیدنا جبرائیل علیہ السلام کااُم المومنین رضی اللہ عنہا کو حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اللہ ذوالجلال کا سلام پیش کرنا،عورت کی یہ عزت افزائی اللہ پاک کی طرف سے ہے۔ قرآنِ پاک میں عورتوں کے واقعات بیان کر کے خداوند تعالیٰ نے انکی اہمیت آشکار کر دی کہ وہ کس حد تک مردوں کی سعادت و شقاوت کا ذریعہ بن سکتی ہیں... اگر قرآن ان کا ذکر نہ کر تا تو فلسفہ، معاشرت و سیاست کا ایک عظیم باب ہماری نظروں سے اوجھل رہ جاتا۔ [1]
دینِ اسلام میں عورت اپنے چاروں معاشرتی مقام(ماں،بہن،بیوی،بیٹی)کے لحاظ سے ہر معاشرتی نوعیت میں(جائز حدود میں رہتے ہوئے) اپنی منشاء کے استعمال کا حق رکھتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان عورتیں کبھی بھی قانونی طور پر تعصب کا شکارنہیں کی گئیں اور نہ ہی وہ معاشرتی طور پر زند گی کی تعمیروترقی میں فعال کردار ادا کرنے سے منع کی گئیں ۔ جو مقام دائرہ اسلام میں ملا وہ مرتبہ کوئی دوسرا معاشرہ عورت کو نہیں دے سکتا تاآنکہ وہ اسلامی اصولوں کو اپنا کر فریبی دعوؤں سے توبہ کر لے۔رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ، خُطبہ حجتہ الوداع میں فرمایا:
’’عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ [2]
پوری اُمتِ مسلمہ کو متحد ہو کرصنفِ نازک کے خلاف جاری فتنہ انگیزسازش کے خاتمہ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔مسلم ممالک کے حکمرانوں کواپنی مسلم ریاستوں میں ایسے مؤثر اقدام کرنا ہونگے جوعورت کوحقیقی تحفظ فراہم کر سکیں اور زمینی حقائق تک پہنچ کر اپنا فلاحی کردار ادا کر سکیں۔انصاف فراہم کرنے والے اداروں او ر قومی ذرائع ابلاغ کو جرائم کی روک تھام کے لیے حقیقی محافظ بننا ہو گا۔ہمیں اپنے فکری اور تعلیمی نظام میں اسلامی نظریے سے راہنمائی لینا ہو گی جو نوجوان نسل کی صحیح اسلامی ذہن سازی کر ے تاکہ اُ نہیں بے راہ روی سے بچایا جا سکے۔ اکیسویں صدی کے اس علمی اور سائنسی دور میں،جب دنیا ایک گلُوبل وِلیج بن چکی ہے،فریبی دنیا کے ہاتھوں کھلونا بننے کی بجائے عو رت کو اپنے محافظ او راپنے دشمن خود پہچاننا ہو نگے تاکہ وہ اپنامعتبر معاشرتی مقام حاصل کرسکے۔
[1] فراہی، حمیدالدین ،امام،مجموعہ تفاسیرِ فراہی: ص504،فاران فاؤنڈیشن،لاہور، س ن
[2] سنن أبي داؤد، كتاب المناسك، باب صفة حجة النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: 1905