کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 121
دنیا کوچا ہیے کہ وہ عورتوں کے حقوق کے لیے مؤثر کارکردگی کا مظاہرہ کریں اور عورتوں کو بد راہ نہ کریں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((لَيْسَ مِنَّا مَنْ خَبَّبَ امْرَأَةً عَلَى زَوْجِهَا، أَوْ عَبْدًا عَلَى سَيِّدِهِ)) [1] ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو بدراہ کرے کسی عورت کو اسکے خاوند پر یا غلام کو اسکے مالک پر۔‘‘ لہٰذا تمام اربابِ اختیارکو عورت کی حقیقی آزادی اور تحفظ کے لیے ایسے موزوں اور مؤثر اقدام کرنا ہونگے جو اسے خود سری اور اپنے پاؤں پر خودکلھاڑی مارنے کے لیے مجبور نہ کرسکیں۔اگر عورت کو وہ مقام دیاجائے جس کے دینے کا حق ہے تو ہرمعاشرہ د نیا اور آخرت کی کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ دوسری طرف عورت پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے معاشرے کے بنیادی نظریے اور اس نظریے سے ماخوذ طرز معاشرت کی نوعیت کو غیر جانبداری سے پرکھے اور اپنا معاشرتی مقام خود متعین کرے۔ اسلامی معاشر ے میں عورت کی ذمہ داریاں اور شرعی ضابطے ۱۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق گھریلو معاملات کی تنظیم،بچوں کی تربیت ونگہداشت اور دیگر افرادِخانہ کی دیکھ بھال عورت کی اولین معاشرتی ذمہ داری ہے۔ ۲۔ عورت چاہے کسی بھی رشتے سے منسوب ہو،اسے چاہیے کہ وہ اپنے سربراہ کی اجازت سے ہی وسیع معاشرتی دائرہ کار میں ایسی مفید خدمات پیش کرے جو فرد،خاندان اور معاشرے کے لیے مفید ثابت ہوں۔ ۳۔ مردوں سے مشارکت کے دوران ملاقا ت کے اوقات کار،پردہ،لباس،چال ڈھال،گفتار وحرکات میں شرعی حدود کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تاکہ معاشرتی اور اخلاقی مفاسد سے بچا جاسکے۔ ۴۔ عورت کو چاہیے کہ وہ ایسی متوازن تعلیم سے خود کوروشناس کرائے جو اسلامی تربیت کے عام اہداف کے ساتھ ساتھ گھریلو زندگی میں بھی مددگار ثابت ہوں۔ ۵۔ اسلامی آدابِ معاشرت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اپنی خدمت کچھ اسطرح سے بجا لائے کہ تربیت، معاشرت، معاشیات اور تنظیمی شعبوں کا مفید ربط منفی انداز میں متاثر نہ ہو۔ ۶۔ شعبہ طِب،مواصلات،ابلاغ،سیاسیات،دفاع،فنی اور معاشرتی فلاحی اداروں میں کام کرتے ہوئے شرعی اور فطری حدود کو نظر انداز نہ کرے۔کیونکہ اخلاقی اقدار کی پامالی پورے معاشرے کی تباہی کا سبب ہے۔ ۷۔ مسلم معاشرے کی کسی بھی بڑی مصلحت،امر بالمعروف و نہی عن المنکراور غریب افرادِخانہ کی مالی معاونت کے لیے عورت (شرعی حدود میں رہتے ہوئے)مفیدومؤثر معاشرتی کردار ادا کر سکتی ہے۔ ۸۔ بیدار مغز مسلمان عورت کو چاہیے کہ وہ معاشرتی میدان میں فرضِ کفایہ مثلاً غریب عورتوں،لاوارث بچے اور بچیوں کی نگہداشت و کفالت کریں۔نیز ایسی مثبت سرگرمیوں میں حصّہ لیں جن سے عقلی،روحانی اور
[1] سنن أبي داؤد، كتاب الطلاق، باب فيمن خبب امرأة على زوجها: 2175