کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 12
ضابطے اور استعمال کے عام قانون کے خلاف ہونا ، جیسے معانی کے گرد گھومتا ہے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے:
’’شذّ یشذّ شذوذ: انفرد عن الجمهور وندر فهو شاذ. ‘‘[1]
’’اس نے جمہور سے الگ اور منفرد رائے اختیار کی۔‘‘
اس کے بالمقابل عربی زبان ہی کا ایک دوسرا لفظ ’ضعیف‘ بھی ہے ، جو ’’ضَعَّفَ يُضعِّفُ ضُعْفًا‘‘ سے ہے جس کا معنی ہے کہ کمزور ہونا، ردی ہونا یا سقیم ہونا۔ [2] پس کلام عرب میں ’شاذ‘ اور ’ضعیف‘ کے معانی میں فرق ہے اور مختلف علوم کی اصطلاحات میں شاذ اور ضعیف کے درمیان یہ اختلافی معنیٰ بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں، کیونکہ اہل علم کے ہاں اصطلاحات منقول کے قبیل ہی سے ہوا کرتی ہیں۔[3] مختلف علوم کی اصطلاحات میں ’شاذ‘ اور ’ضعیف‘ کے درمیان فرق درج ذیل بحث سے واضح ہے۔
عربی گرامر میں شاذ
عربی زبان کے اصولوں کے ضمن میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ شاذ ضعیف قول کو نہیں، بلکہ قلیل الاستعمال کو کہتے ہیں، چنانچہ مشہور قاعدے کے خلافِ استعمال کو شاذ کہیں گے۔ او ر یہ بات معروف ہے کہ عربی زبان کی تدوین کے وقت اکثریتی رویوں کو مدنظر رکھ کر نحوی قواعدتشکیل دیے گئے ہیں۔ زبان اور قواعدِ زبان کا ضابطہ یہ ہے کہ کلام کرتے ہوئے قواعد کے مطابق بات کی جائے۔ البتہ اگر کوئی قلیل الاستعمال لغت کے مطابق بات کرتا ہے تو وہ اس پر عمل تو کرسکتا ہے کیونکہ شاذ کا بہرحال عربی زبان میں ایک استعمال تو ہوتا ہےجبکہ ضعیف کا ثبوت ہی نہیں ہوتا۔ شاذ لغت پر عمل مرجوح شے کو اختیار کرنا ہے، غلط کو نہیں۔ چنانچہ کلام وبیان کے ماہرین ’شاذ لغت‘ پر عمل کو جائز تو کہتے ہیں، البتہ پسندیدہ نہیں سمجھتے۔
قرآن کریم میں شاذ
چند راویوں سے آنے والی اس عام قراء ت کو، جو تواتر کے درجہ کو نہ پہنچے اور نہ ہی اَئمہ قراء ت کے ہاں اسے قبولیت عامہ حاصل ہو، اصطلاح قراء میں شاذ قراء ت کہتے ہیں۔ [4]گویا اہل فن کے ہاں شاذ قراءات کے امتیاز کے لیے دو شرائط ضروری ہیں:
۱۔ وہ قراء ت بطریق تواتر منقول نہ ہو۔
[1] ابن منظور، محمد بن مكرم، لسان العرب:4/494، دار صادر، بيروت، الطبعة الثالثة، 1414ھ
[2] الفيروز آبادي، مجد الدين، قاموس المحیط: 1/829، مؤسسة الرسالة للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، 2005م
[3] روپڑی، عبد اللہ، محدث، حافظ، درایت تفسیری: ص 66، مجلس تحقیق اسلامی لاہور
[4] زرکشي، بدر الدین محمد بن بهادر، البرهان في علوم القرآن، تحقیق: الدکتور یوسف عبد الرحمن المرعشیلی: 1/481، دار المعرفة، بیروت، الطبعة الأولى، 1990م