کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 118
جس طرح عورت کو اسلام نے اعلیٰ مراتب سے نوازا اسی طرح اس کو علم حاصل کرنے کاحق بھی دیا۔طلبِ علم کے سلسلے میں خوا تین آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خصوصی گفتگو کا مطالبہ کرتیں تھیں اور حوالہ کے لیے یہ مثال پیش کی جاتی ہے : ’’ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں لے گئے لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک د ن ہمارے لیے بھی مخصوص فرما دیں ...آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا :تم فلاں دن جمع ہو جاؤ۔خواتین جمع ہو گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے اوروعظ و نصیحت فرمائی۔‘‘ [1] محدثین نے روایتِ حدیث کے لحاظ سے صحابہ کے پانچ طبقے قرار دئیے ہیں ،اول طبقے میں وہ صحابہ جنکی روایتیں ہزار یا ہزار سے زیادہ ہیں ،امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا شمار اسی طبقہ اول میں ہے۔ [2]شاہ جہاں بیگم (متوفیٰ1091ء ) تحریر کرتی ہیں: ’’میرے نزدیک تو بے حیائی اور بدکاری جہالت سے ہوتی ہے اورعصمت و عفِت علم سے۔‘‘ [3] ’’عورتوں کی تعلیم دنیا کے تمام معاشروں کے لیے ایک بنیادی اور حساس معاملہ رہاہے ہر معاشر ے نے اس صورتحال کو اپنے معاشی اور تہذیبی پس منظر میں جاننے اور فکری ماحول کے حوالے سے اس مسئلے کو حل کر نے کی کو شش کی اور آج تک ان کوششوں کو پر کھنے اور جانچنے کا سلسلہ جاری ہے۔‘‘ [4] عورت کی ذات سے منسلک پردہ بھی ایک اہم حقیقت ہے جوقرآن وسنت کی نصوص سے ثابت ہے ۔ علماء شریعت کے درمیان پردہ متفق علیہ مسئلہ ہے البتہ اس کی حدود کے تعین میں جُزوی اختلاف ہے۔ ’’حجاب تو عورت کے حُسن و جمال کے لیے ایک پردہ ہے اور ہماری شریعتِ مطہرہ اس اُمت کی طہارت،پاکدامنی اور حلال پسندی کی بنیادوں پر تعمیرِسیرت کرنا چاہتی ہے۔‘‘ [5] پردہ کے حق میں اورمخالفت میں ہمیشہ سے متنازعہ گروہ موجود رہے ہیں۔بعض لوگ اسے عورت کی آزادی کے لیے رکاوٹ سمجھتے ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب عورت خود پردہ کے حق میں ہے اور پردے میں رہتے ہوئے دنیا کے ہر میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہے تو پردہ کی مخالفت کرنے والوں کو اور پردہ کے حق میں بولنے والے گروہوں کو شدت پسندی کے بجائے اعتدال سے کام لینا چاہیے ۔کیونکہ پردہ کے احکام نازل ہو
[1] صحیح البخاری، کتاب الاعتصام،باب تعلیم النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمته من الرجال والنساء: 7310 [2] سعید انصاری، ندوی عبداسلام، سیرالصحابیات معہ اسوہ الصحابیات:ص211،مکتبہ اداریہ،ملتان،طبع اول، 1942ء [3] شاہ جہاں،بیگم ،تہذیبِ نسواں: ص177،نعمانی کتب خانہ،لاہور،طبع سوم، 1970ء [4] عورت،زبانِ خلق سے زبانِ حال تک:ص262 [5] خالد عبدالرحمن ، عورتوں پر حرام مگرکیا؟،مترجم سلیم اللہ زمان:ص 595،دارالبلاغ،لاہور،طبع اول، 2009ء