کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 117
’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں کہ اچھے کام کرنے کو کہتے اور بری باتوں سے منع کرتے اور نماز پڑھتے اورزکوٰۃ دیتے اوراللہ اور اس کے پیغمبر کی اطاعت کرتے ہیں۔‘‘ ’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تین آدمی ازواجِ مطہرات کے گھروں میں آئے تاکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارے میں ان سے پوچھیں۔‘‘ [1] ہجرتِ حبشہ اور ہجرتِ مدینہ ،خواتین کی مردوں کے ساتھ اجتماعی شرکت کی عظیم مثالیں ہیں۔اس کے علاوہ طلبِ علم،دعوتِ دین،جہادفی سبیل اللہ،شادی و ولیمہ کی تقاریب اورعیادت وغیرہ میں بھی عورت اور مرد کی مشار کت کی مثالیں عہدرسالت میں ہی ثابت ہیں: ’’جدید معاشرے میں بہت سے ادارے وجود میں آ گئے ہیں۔خواہ ان کا تعلق تعلیمی اداروں سے ہو یا میڈیکل کے اداروں سے یا سروسز یاحکومتی اداروں سے، خصوصاً ایسے ادارے جن میں براہ راست مردوں اور عورتوں کا رابطہ ہوتا ہے مثلاً شہری رجسٹریشن، شناختی کارڈ یا پاسپورٹ، پولیس اسٹیشن اور ٹریفک پولیس کے سنٹرز وغیرہ جبکہ قدیم معاشرے میں اس طرح کے اداروں کا نام و نشاں نہ تھا۔اداروں کی یہ کثرت اور ان میں کام کرنے کے لیے افراد کی ضرورت بھی عورت کے گھر سے باہر نکلنے اور مردوں کے ساتھ ملاقات کا تقاضا کرتی ہے۔‘‘ [2] مظہر الدین صدیقی لکھتے ہیں: ’’ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر اسلام کو ساتویں صدی عیسوی کا نہیں بلکہ بیسویں صدی کا زمانہ ملتا تو وہ عورتوں کی آزادی اور حقوق کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرتا اگر کوئی قوم اپنی مدافعت اور تحفظ کے اغراض کے لیے صنعتی توسیع ،دفاعی تربیت اور طبی امداد کے انتظامات وغیرہ شروع کرے تو کیا اس ملک کی عورتوں کو بالکل الگ تھلگ رکھا جا سکتا ہے ؟...موجودہ زمانے میں ہمیں عورتوں کو اس سے زیادہ آزادی دینی پڑے گی جتنی انھیں زمانہ اسلام میں حا صل تھی ...موجودہ زمانہ میں عورتوں کے تعاون کی حاجت اس سے کہیں زیادہ اور وسیع پیمانہ پر ہے۔‘‘ [3] علم انسانی شخصیت کا زیور ہے ،اس زیور سے عورت کی ذات کو محروم نہیں رکھا گیا دوسرے شعبوں کی طرح علم کے شعبے میں بھی عورت کا بہت زیادہ حصہ ہے ۔ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ((طلب العلم فریضة علی کل مسلم )) [4] ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان(مردوعورت) پر لازم ہے۔‘‘
[1] صحيح البخاري، كتاب النكاح، باب الترغيب في النكاح: 5063 [2] آزادیِ نسواں (عہدِ رسالت میں):2/58 [3] صدیقی،مظہرالدین محمد، اسلام میں حیثیت نسواں:2/198۔200ص [4] البزار، أبو بكر أحمد بن عمرو، مسند البزار، مسند أبي حمزة أنس بن مالك: 6746، قال الألباني في هذا الحديث ضعيف ، مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة، الطبعة الأولى، 2009م