کتاب: رُشدشمارہ 09 - صفحہ 116
پر یہودیوں کے غاصبانہ قبضہ نے عورت پر جہاد میں شرکت کو فر ض قرار دے دیا ہے ۔اس وجہ سے اس نے آزادی کی تحریکوں میں بھی حصہ لیا ہے۔‘‘ [1] جدید معاشرے کی پیچیدگی اور اس کے نتیجے میں عورت کی زندگی کی پیچیدگی نے عورت سے متعلق نئے مشکلات ومسائل کو جنم دیا ہے ۔اس وجہ سے لوکل اور قانون ساز کونسلوں میں اسکی شرکت کے اسباب میں اضافہ ہو گیا ہے [2] بحیثیت جنگجو سیدہ اُم عطیہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: ’’میں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات(۷)غزوات میں حصّہ لیا میرا یہ کام تھا کہ مجاہدین کا کھانا پکاتی، زخمیوں کی مرہم پٹی اور دوا داروکرتی۔‘‘ [3] سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ حنین کے روز اُم سلیم نے(مشرکوں سے اپنی حفاظت کے لیے)خنجر اُٹھایا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو مسکرانے لگے۔ [4] اس سے ظاہر ہوتا ہے: ’’زمانہ صلح میں جو پابندیاں مردوں سے میل جول اور بات چیت کے بارے میں ان پر عائد کی گئی تھیں انھیں زمانہ جنگ میں بالکل معطل کر دیا گیا ہو گا۔اب اگر کسی زمانہ کی ضروریات اور مصالح کا اقتضاء یہ ہو کہ ان پابندیوں میں تخفیف کر دی جائے تو یہ عمل نہ تو خلافِ شر یعت ہو گا اور نہ خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافر مانی کے مترادف ہو سکتا ہے۔‘‘ [5] ’’معاشرتی زندگی میں عورت کی شرکت اور مردوں کے ساتھ ملاقات ،نیکی کے میدانوں میں تعامل کی راہ ہموار کرتے ہیں۔‘‘ [6] ارشادِباری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ يُطِيْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ اُولٰٓىِٕكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّٰهُ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ﴾ [7]
[1] آزادیِ نسواں (عہدِ رسالت میں):2/375 [2] ایضاً : 2/376 [3] صحيح مسلم، كتاب الجهاد والسير، باب غزوة النساء مع الرجال: 1812 [4] صحيح مسلم، كتاب الجهاد والسير، باب غزوة النساء مع الرجال: 1809 [5] صدیقی،مظہرالدین محمد، اسلام میں حیثیتِ نسواں:2/197،ادارہ ثقافتِ اسلامیہ،لاہور، طبع اول، 1965ء [6] آزادیِ نسواں (عہدِ رسالت میں)،:2/28 [7] سورة التوبة 9:71