کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 63
مثلا نماز کامقصد یاد خداوندی اورروزہ کامقصد حصول تقوی ہے۔ تفاسیر قرآن اورشروحات احادیث میں علماء اکثر طورپر احکام شریعت کےجواسرار وحکم کواجاگر کرتےہیں، وہ اسی باب سےتعلق رکھتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی تصنیف لطیف ’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘ اورمولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی کتاب ’’احکام اسلام، عقل کی نظر میں‘‘ شرعی احکام کےجزوی مقاصد کی نقاب کشائی میں منفرد مقام رکھتی ہیں۔
چوتھی تقسیم : یقین وظن کےاعتبار سے
شرعی احکام کےمقاصد کاقطعیت وظنیت کےپہلو سےجائزہ لیاجائے تویہ درج ذیل اقسام میں انقسام پذیر ہوں گے:
1۔مقاصد قطعیہ: یہ وہ مقاصد ہیں جن کےاثبات پر دلائل ونصوص تواتر سے موجود ہیں۔ مثلا تیسیر، امن، حفظ ناموس وآبرواورحفاظت اموال وغیرہ ۔
2۔مقاصد طنیہ :ان سےمراد وہ مقاصد ہیں، جن کےدلائل درجہ قطعیت کونہیں پہنچتے بلکہ ان کی توجیہ وتاویل میں غور وفکر اور بحث ونظرکاعمل دخل ہے۔ مثلا فساد عقل کاموجب بننےوالی اشیاء کی ممانعت اور سدباب۔ اس سلسلہ میں نشہ آور اشیاء کی قلیل مقدار کی حرمت کامقصد یہی بیان کیاجاتاہے کہ اس سےخرابی عقل کاانسداد ہوتاہے۔ اوریہ ظنی مقصد ہے ۔
3۔مقاصد وہمیہ :جن امور سےمتعلق یہ گمان ہوکہ ان میں مصلحت موجود ہے لہٰذا یہ مقاصد شریعت میں شامل ہیں لیکن درحقیقت معاملہ اس کےبرعکس ہوتوانہیں مقاصد وہمیہ میں شمار کیاجائے گا۔ اہل علم کی اصطلاح میں انہیں ’مصالح ملغاۃ ‘کانام دیاجاتاہے۔ مثال کےطورپر یہ سمجھنا کہ جوئے میں منافع ہے حالانکہ یہ قطعا حرام ہے۔فی زمانہ مصلحت ومقاصد شریعت کےنام پر ایسی بہت سی اشیاء کو جائز اورحلال قرار دیاجاتاہے جن کےڈانڈے واضح طورپر محرمات سےملتےہیں۔ اس سلسلہ میں بینکوں اورمختلف تجارتی کمپنیوں کی جانب سے پرکشش انعامی سکیموں کوبطورمثال پیش کیاجاسکتاہے۔ جن میں سوداورجوئے کاعنصر نمایاں ہے۔
پانچویں تقسیم :افراد کے اعتبارسے
اس پہلو سےمقاصد شریعت دوقسموں پر ہیں :
1۔مقاصد کلیہ: جومقاصد تمام امت یاعظیم اکثریت سےمتعلق ہوں، مقاصد کلیہ کہلاتےہیں۔ مثلاً نظم اجتماعی کاقیام وحفاظت، قرآن وسنت کو تحریف وتبدل سےمحفوظ رکھنا، معاملات کی تنظیم، باہمی تعاون وہمدردی کارویہ اوراخلاقی اقدار کاتحفظ وغیرہ ۔
2۔مقاصد بعضیہ: ان سےوہ مقاصد مرادہیں، جوبعض لوگوں کےمفاد میں ہوں اوربراہ راست کچھ لوگ ہی ان سےمستفید ہوں۔ مثلاً تجارت سےفائدہ اٹھانا، حق مہر، اولاد سےانس ومحبت وغیرہ ۔ [1]
[1] علم المقاصد الشرعية: ص71۔75