کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 37
وَلَمْ يَنْعَتْهُمْ بِذَهَابِ عُقُولِهِمْ وَالْغَشَيَانِ عَلَيْهِمْ، إِنَّمَا هَذَا فِي أَهْلِ الْبِدَعِ، وَهَذَا مِنَ الشَّيْطَانِ. [1]
”یہ اولیاء اللہ کی صفت ہے۔ اللہ نے اپنے اولیا کی یہ صفت بیان کی ہے کہ اللہ کی یاد میں اُن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، اُن کی آنکھیں سے آنسو بہہ پڑتے ہیں اور اُن کے دل اللہ کی یاد سے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ اور اللہ عزوجل نے اپنے اولیا کی یہ صفت بیان نہیں کی کہ اللہ کی یاد میں ان کی عقل رخصت ہو جاتی ہے یا وہ بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ اور یہ تو اہل بدعت کے احوال ہیں اور یہ شیطان کی طرف سے وارد ہوتے ہیں۔“
اسی طرح سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا :
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الْقَوْمِ يُقْرَأُ عَلَيْهِمِ الْقُرْآنُ فَيَصْعَقُونَ. فَقَالَ: ((ذَلِكَ فِعْلُ الْخَوَارِجِ)) [2]
”کچھ لوگ جب قرآن مجید سنتے ہیں تو بے ہوش ہو کر گر جاتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ خوارج کی صفت ہے۔“
اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما کا ایک عراقی سے گزر ہوا جو کہ زمین پر گرا پڑا تھا اور لوگ اُس کے ارد گرد جمع تھے تو انہوں نے پوچھا:
((مَا هَذَا؟)) فَقَالُوا: إِذَا قُرِئَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ أَوْ سَمِعَ اللّٰہ يُذْكَرُ خَرَّ مِنْ خَشْيَةِ اللّٰہِ . فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: ((وَاللّٰہ إِنَّا لَنَخْشَى اللّٰہ وَمَا نَسْقُطُ)) [3]
”اسے کیا ہوا ہے۔ لوگوں نے جواب دیا کہ جب اس پر قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے یا وہ اللہ کا ذکر سنتا ہے تو خشیت الہی سے زمین پر گر پڑتا ہے تو ابن عمر رضی اللہ عنہما کہا: اللہ کی قسم، خشیت تو ہم پر بھی طاری ہوتی ہے لیکن ہم اس طرح زمین پر نہیں گرتے۔“
اسی طرح معروف تابعی سیدنا عکرمہ رحمہ اللہ سے مروی ہے:
عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: سُئِلَتْ أَسْمَاءُ هَلْ كَانَ أَحَدٌ مِنَ السَّلَفِ يُغْشَى عَلَيْهِ مِنَ الْخَوْفِ؟ فَقَالَتْ: ((لَا، وَلَكِنَّهُمْ كَانُوا يَبْكُونَ)) [4]
[1] ابن كثير، إسماعيل بن عمر القرشي، تفسير القرآن العظيم: 7/95، دار طيبة للنشر والتوزيع، الطبعة الثانية، 1420ھ
[2] البغدادي، القاسم بن سلاّم بن عبد الله الهروي، أبو عُبيد، فضائل القرآن: ص 215، دار ابن كثير، بيروت، الطبعة الأولى،1995م
[3] فضائل القرآن: ص 214
[4] أيضاً: ص 214