کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 34
جبکہ چشتیہ اس کے جواز کے قائل ہیں۔ [1] ائمہ اربعہ اور محدثین عظام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آلات موسیقی حرام ہیں۔[2] اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سماع، وجد اور رقص کو تقرب اور تزکیہ کا ذریعہ بنایا ؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ کیا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے یہ تصور بھی کر سکتے ہیں کہ وہ قوالی سنتے اور دھمال ڈالتے ہوں گے؟ نہیں، ہر گز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام شافعی(متوفیٰ204ھ) ، امام احمد بن حنبل(متوفیٰ241ھ) ، قاضی ابو الطیب الشافعی(متوفیٰ450ھ)، امام قرطبی المالکی(متوفیٰ1273ھ)، امام طرطوشی المالکی (متوفیٰ1126ھ)، امام الشاطبی المالکی(متوفیٰ1388ھ)، امام ابن الصلاح الشافعی(متوفیٰ1245ھ)، امام ابن تیمیہ الحنبلی(متوفیٰ728ھ)امام ابن القیم الحنبلی(متوفیٰ751ھ)رحمہم اللہ نے صوفیا ءکے سماع اور رقص کو بدعت قرار دیا ہے۔ حنفی فقیہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ (متوفیٰ970ھ)لکھتے ہیں: وَعَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادَةَ قَالَ كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰه صلی اللّٰہ علیہ وسلم يَكْرَهُونَ الصَّوْتَ عِنْدَ ثَلَاثٍ: الْجَنَائِزُ، وَالْقِتَالُ، وَالذِّكْرُ، وَالْمُرَادُ بِالذِّكْرِ الْوَعْظُ وَقَالَ الْإِمَامُ شَمْسُ الْأَئِمَّةِ السَّرَخْسِيُّ فَفِي هَذَا الْحَدِيثِ بَيَانُ كَرَاهَةِ رَفْعِ الصَّوْتِ عِنْدَ سَمَاعِ الْقُرْآنِ، وَالْوَعْظِ فَتَبَيَّنَ بِهِ أَنَّ مَا يَفْعَلُهُ الَّذِينَ يَدَّعُونَ الْوَجْدَ، وَالْمَحَبَّةَ مَكْرُوهٌ وَلَا أَصْلَ لَهُ فِي الدِّينِ وَتَبَيَّنَ بِهِ أَنَّهُ يُمْنَعُ الْمُتَقَشِّفَةُ وَحَمْقَى أَهْلِ التَّصَوُّفِ مِمَّا يَعْتَادُونَهُ مِنْ رَفْعِ الصَّوْتِ وَتَمْزِيقِ الثِّيَابِ عِنْدَ السَّمَاعِ، لِأَنَّ ذَلِكَ مَكْرُوهٌ فِي الدِّينِ عِنْدَ سَمَاعِ الْقُرْآنِ، وَالْوَعْظِ فَمَا ظَنُّك عِنْدَ سَمَاعِ الْغِنَاءِ. [3] ”سیدناقیس بن عبادۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم تین مقامات پر آواز بلند کرنے کو ناپسند جانتے تھے: جنازے کے وقت، لڑائی کے وقت اور ذکر کرتے وقت کہ جس سے مراد وعظ ہے۔ شمس الائمہ امام سرخسی رحمہ اللہ (متوفیٰ1090ھ) کا کہنا ہے کہ یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن اور وعظ سنتے وقت بلند آواز نکالنا مکروہ ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ جسے یہ (صوفیاء) وجد اور محبت کا نام دے کر کرتے ہیں، وہ بھی مکروہ ہے۔ اور دین میں اس کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ اور اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ اہل تصوف میں موجود اس قسم کے زاہدوں اور احمقوں کو سماع کے وقت آوازیں بلند کرنے اور کپڑے پھاڑنے سے منع کیا جائے کیونکہ یہ تو قرآن اور وعظ کے سماع کے وقت جائز نہیں ہے تو غنا کے سماع کے وقت کیسے جائز ہو گا؟“
[1] شریعت اور طریقت: ص 295۔296 [2] الألباني، محمد ناصر الدين، تحريم آلات الطرب: ص98۔105، مؤسسة الريان، بيروت، الطبعة الثالثة، 2005ء [3] ابن نجيم المصري، زين الدين بن إبراهيم، البحر الرائق شرح كنز الدقائق: 5/82، دار الكتاب الإسلامي