کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 33
حاصل ہو۔ شہید دراصل مقام فنا سے گزر کر بقا کا ایسا مقام حاصل کر لیتا ہے کہ جس کو پھر زوال نہیں ہے۔ اور یہاں فنا زوال ہے اور بقا عروج ہے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ﴿ وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُوْنَ﴾ [1] ”اور تم ان لوگوں کو مردہ خیال مت کرو جو اللہ کے راستے میں مارے گئے بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں رزق دیے جاتے ہیں۔“ جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((أَرْوَاحُ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللّٰہ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي حَوَاصِلِ طَيْرٍ خُضْرٍ، لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ، تَسْرَحُ فِي أَيِّ الْجَنَّةِ شَاءُوا، ثُمَّ تَرْجِعُ إِلَى قَنَادِيلِهَا فَيُشْرِفُ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ فَيَقُولُ: أَلَكُمْ حَاجَةٌ؟ تُرِيدُونَ شَيْئًا؟ فَيَقُولُونَ: لَا، إِلَّا أَنْ نَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا فَنُقْتَلَ مَرَّةً أُخْرَى)) [2] ”شہداء کی ارواح قیامت کے دن تک اللہ کے پاس رہتی ہیں اور انہیں سبز پرندوں کے پیٹوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اُن کی رہائش کے لیے عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی قندیلیں ہیں۔ یہ ارواح جنت میں جہاں چاہتی ہیں، چرتی چگتی ہیں اور پھر شام کو عرش کے نیچے اپنی قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں۔ پس اُن کا رب اُنہیں جھانک کر دیکھتا ہے اور اُن سے پوچھتا ہے کہ تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہے، کچھ چاہیے؟ تو وہ کہتی ہیں: نہیں، کچھ نہیں چاہیے سوائے اس کے کہ ہم دنیا میں ایک بار دوبارہ بھیجی جائیں اور ہمیں دوبارہ اُسی طرح قتل کیا جائے۔“ فنا وبقا کا یہ تصور انسان کے وجود میں سر مستی وسرشاری، امید وحیات اور اپنے رب پر بار بار نثار ہونے کی جو احوال اور کیفیات پیدا کر دیتا ہے، وہ کسی اور تصور سے پیدا ہونی ممکن ہیں کیا؟ سماع اور وجد صوفیاء کے نزدیک سماع سے مراد غنائیہ اشعار کو آلات اور رقص کے ساتھ خوبصورت آواز کی صورت میں پیش کرنا ہے۔[3] مروجہ قوالی اور دھمال ، سماع اور وجد ہی کی ارتقائی صورتیں ہیں۔ بعض صوفیاء کا کہنا ہے کہ سماع سے انسان کے دل میں چھپا ہوا شوق، وجد، ہیجان، رقت اور قلق بیدار ہو جاتا ہے اور اس طرح گویا سماع سے دل میں ایسی حرکت پیدا ہوتی ہے جو تقرب الی اللہ کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ سلاسل میں سے نقشبندیہ سماع سے اجتناب
[1] سورة آل عمران:3: 169 [2] الدارمي، عبد اللّٰه بن عبد الرحمن ، مسند الدارمي، كتاب الجهاد، باب أرواح الشهداء: 2454، قال حسين أسد الدارني إسناده صحيح، دار المغني للنشر والتوزيع، المملكة العربية السعودية، الطبعة الأولى، 2000ء [3] الغزالي، أبو حامد محمد بن محمد، إحياء علوم الدين: 2/268۔306، دار المعرفة، بيروت