کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 32
وہ اللہ کے تصور کے ساتھ غیر کا تصور اپنے ذہن میں اور اللہ کی محبت کے ساتھ مخلوق کی محبت بھی اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ اس طرح مخلوق جو کہ فنا فی اللہ میں سالک کے لیے معدوم ہو چکی تھی، اگرچہ حقیقت میں وہ موجود تھی، تو بقا باللہ میں وہ مخلوق دوبارہ سالک کے قلب وذہن میں آ موجود ہوتی ہے۔ [1]
ہمیں فنا وبقا کی ان دونوں تعبیرات سے دلچسپی نہیں ہے۔ پہلی تعبیر اگرچہ اپنے مقصود میں تو شرعی ہے یعنی رذائل کا خاتمہ اور اخلاق عالیہ سے متصف ہونا لیکن یہ تعبیر فنا اور بقا کے الفاظ کا دور کا معنی معلوم ہوتا ہے۔ اور فناوبقا کی دوسری تعبیر تو شرعی اعتبار سے بھی مطلوب نہیں ہے کیونکہ اس تعبیر کو مان لینے کی صورت میں فنا فی اللہ کا عروج استغراق (self-absorption) اور سکر (senselessness)قرار پاتا ہے جو شرعی اعتبار سے مطلوب صفات نہیں ہیں۔ استغراق اگر مطلوب ہوتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جماعت کی نماز میں بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز مختصر نہ کرتے۔ عین نماز کی حالت میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف بھی کامل درجے میں متوجہ رہتے تھے اور اپنی امت سے بھی غافل نہ تھے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
((إِنِّي لَأَقُومُ فِي الصَّلاَةِ أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلاَتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ)) [2]
”میں نماز پڑھانے کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور میرا دل چاہتا ہے کہ میں اپنی نماز لمبی کروں۔ پس اسی دوران مجھے کسی بچے کے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے تو میں اپنی نماز مختصر کر دیتا ہوں تا کہ اُس کی ماں زیادہ دیر تکلیف میں نہ رہے۔“
اور امام ابن قیم رحمہ اللہ نے درست کہا کہ اس تعبیر کو مان لینے کی صورت میں مقام فنا میں جب سالک ﴿ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾[3] کی تلاوت نماز میں کرے گا تو کس ذہنی شعور کے ساتھ اپنی عبدیت کا اقرار کر پائے گا؟ [4]
اگر ہم کتاب وسنت سے فنا وبقا کا تصور لیں تو وہ اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ فنا وبقا سے مراد اللہ کے قرب کے شوق میں اپنی جان کو قربان کر دینا ہے۔ اللہ کے راستے میں جان دے دینا، جسے ہم شہادت کہتے ہیں، سے بڑھ کر انسان کیا مرتبہ فنا حاصل کرے گا؟ اور اس فنا یا شہادت کے بعد اللہ کے عرش کے نیچے قندیلوں میں رات گزارنے سے بڑھ کر بقا باللہ کا کیا تصور ہمارے قلب وذہن میں آ سکتا ہے کہ جسے کتاب وسنت کی تصدیق بھی
[1] شریعت وطریقت: ص 307
[2] صحيح البخاري، كتاب الآذان، بَابُ مَنْ أَخَفَّ الصَّلاَةَ عِنْدَ بُكَاءِ الصَّبِيِّ:707
[3] سورة الفاتحه:4:1
[4] مدارج السالكين: 1/171