کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 31
ہیں جو آزمائش بن جاتی ہے۔ اگر انسان شدید طلب کے بعد دنیا، مال اور جاہ حاصل کر لے تو اس سے بخل اور کنجوسی پیدا ہوتی ہے اور اگر معتدل طلب کے بعد یہ چیزيں حاصل ہوں گی تو بخل اور کنجوسی پیدا نہ ہو گی۔ اور اگر ایسا ہو کہ طلب تو شدید ہو لیکن انسان کو دنیا، مال اور جاہ حاصل کرنا مشکل ہو یہاں تک کہ اسے ان کے حصول کے لیے اپنی قوت غضب استعمال کرنی پڑے تو اس سے فخر، تکبر، ظلم اور عداوت پیدا ہوتی ہے۔ واللہ اعلم
اور اگر انسان اپنے آپ سے کسی ضرر رساں چیز کو دور کرنا چاہے تو اس کے لیے قوت غضب کو استعمال کرتا ہے مثلاً کسی نے اسے گالم گلوچ کی اور اب وہ اس لعن طعن کو اپنے سے دور کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے غضب کی قوت کو استعمال کرے گا۔ اگر وہ اس ضرر رساں چیز کو اپنے سے دور نہ کر سکے تو اس سے بغض پیدا ہوتا ہے اور اگر انسان کسی اورکو دیکھے کہ وہ تو اپنے نفس سے ضرر کو دور کرنے اور فائدہ پہنچانے کی قدرت رکھتا ہے لیکن وہ خود اس اہل نہیں ہے تو اس سے حسد پیدا ہوتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ جذبہ انتقام بھی قوت غضب کے افراط سے پیدا ہوتا ہے۔ واللہ اعلم
فناء اور بقاء
صوفیاء نے تزکیہ نفس میں فناءاور بقاءکی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔ متقدمین صوفیاء کا تصور فناءوبقا ءسادہ تھا۔ فناء سے ان کی مراد رذائل نفس سے اپنی ذات کو پاک کرنا اور بقاءسے مراد اخلاق حمیدہ سے اپنے نفس کو متصف کرنا تھا۔ فناء کی اصطلاح رذائل کے لیے تھی اور بقاء کی اخلاق عالیہ کے لیے۔ شیخ علی ہجویری رحمہ اللہ نے اس بارے گفتگو کرتے ہوئے اپنے زمانے کے ان صوفیوں کو جاہل قرار دیا ہے کہ جو ”فنائے کلی“ کا بدعی تصور رکھتے ہیں۔ [1]
متاخرین صوفیاء میں ایک ایسی جماعت پیدا ہوئی کہ جنہوں نے تصوف کو عمل سے زیادہ نظریہ بنا دیا۔ انہوں نے فنافی اللہ اور بقا باللہ کو سالک کی منازل قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک فنا فی اللہ عروج ہے اور بقا باللہ زوال ہے۔ پس سالک اپنے تزکیہ نفس میں اپنے قلب وذہن کو اللہ کے غیر سے اس طرح پاک کر لے کہ اللہ کا غیر، سالک کے ہاں درجہ علم میں نہ رہے۔ اور سالک کو خالق کے علاوہ کچھ محسوس نہ ہو۔ ایسا سالک اپنے آپ کو اللہ کی ذات میں فنا کر دیتا ہے بایں معنی کہ اس پر اللہ کے تصور اور محبت کا اس قدر غلبہ ہوتا ہے کہ غیر کا وجود اس کے دل ودماغ میں باقی نہیں رہتا۔ فنا فی اللہ کے بعد بعض سالکین کو بقا باللہ کا مرتبہ دیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ سالک اپنے دل ودماغ کو جب اللہ کی ذات میں فنا کر دیتا تو مخلوق اس کے لیے ایک اعتبار سے معدوم ہو گئی ہے۔ اب اللہ کی طرف سے تبلیغ ودعوت یا کسی دوسری مصلحت کے سبب سے سالک کو دوبارہ مخلوق کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے اور
[1] الجلابی الغزنوی الہجویری ،علی بن عثمان بن ابی علی ، کشف المحجوب، مترجم فضل دین گوہر: ص227۔230، مزدور پرنٹنگ پریس، لاہور، 1972ء