کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 30
”اور تم میں سے جو مرد اور عورتیں بغیر نکاح کے ہیں، ان کے نکاح کروا دو۔ اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں میں سے نیکو کاروں کا بھی نکاح کروا دو۔ اور اگر وہ غریب ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ فراخی دینے والا اور جاننے والا ہے۔ اور جو لوگ نکاح کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو انہیں چاہیے کہ وہ عفت اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ عزوجل انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے۔“
شہوت کی قوت سے صرف شہوت ہی پیدا نہیں ہوتی بلکہ لالچ، حرص، طمع اور ہوس وغیرہ جیسے کئی قسم کے رذائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ پس اسلام کا مقصود اُن قوتوں کا خاتمہ نہیں ہے کہ جن کی افراط وتفریط سے نفس میں رذائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ ان قوتوں کو قابو کرنا اور اعتدال کے ساتھ ان کا استعمال ہمارے دین کی تعلیم ہے۔ جسم انسانی میں ان تین قوتوں اور جبلتوں کی مثال تین جنریٹروں (generators)کی سی ہے۔ اگر تو تزکیہ نفس کے عمل میں ان تین جبلتوں(inborn characters) کو کمزور کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس سے تفریط پیدا ہو گی جو اسلام میں مطلوب نہیں ہے۔ اور دوسری صورت لا پرواہی اور غفلت سے ان جبلتوں کو قوی کرنا یعنی افراط ہے اور یہ بھی مطلوب نہیں ہے۔ پس اخلاق حسنہ ہوں یا رذائل (vices)دونوں انہی جبلتوں اور قوتوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر یہ جبلتیں یعنی عقل، غضب اور شہوت اعتدال میں ہوں تو اخلاق حسنہ پیدا ہوتے ہیں اور اگر یہ افراط وتفریط میں ہوں تو رذائل پیدا ہوتے ہیں۔ پس یہ قوتیں اخلاق اور رذائل کی جنریٹر ہیں لہذا ان کی تربیت ضروری ہے اور ان کی تربیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ اعتدال میں رہیں۔ واللہ اعلم
ایک اور بات یہ بھی ذہن میں آتی ہے کہ ہمیں وہ اسباب بھی اختیار نہیں کرنے چاہییں جو ان جبلتوں میں افراط وتفریط کا باعث بنیں۔ مثلاً ضرورت سے کم کھانا انسان میں شہوت کی جبلت کو تفریط میں لے جانے کا سبب بنتا ہے اور ضرورت سے زائد کھانا انسان میں شہوت کی قوت میں افراط کا باعث ہے لہذا نہ تو ضرورت سے کم کھانا تقوی ہے اور نہ ہی ضرورت سے زائد کھانا نیکی ہے بلکہ کھانے میں اعتدال ہونا چاہیے تا کہ شہوت کی قوت میں بھی اعتدال رہے۔ واللہ اعلم
بعض علما کا کہنا ہے کہ شہوت کی قوت اس لیے رکھی گئی کہ انسان اس کے ذریعے اپنے نفس کے واسطے نفع بخش چیزیں حاصل کرے۔ اور غضب کی قوت کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس کے ذریعے اپنی ذات سے ضرر رساں چیزوں کو دور کرے۔ اور عقل کی قوت کا مقصد یہ ہے کہ وہ نفس کے لیے نفع بخش اور ضرر رساں چیزوں میں فرق کرے۔ پس یہ تینوں قوتیں در اصل انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔ پس اس قول کے درست ہونے کی صورت میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ نفس انسانی کی وہ تین جہات ہیں کہ جن سے جمیع اخلاق اور رذائل پیدا ہوتے ہیں۔
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر انسان میں دنیا، مال اور جاہ کی طلب (desire)پیدا ہو تو یہ شہوت کی قوت کی وجہ سے ہے۔ اگر یہ طلب اعتدال میں رہے تو یہی مطلوب ہے اور اگر شدید ہو جائے تو اسے حرص، لالچ اور طمع کہتے