کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 29
میں اعتدال ہو تو اسے حکمت (wisdom)کہتے ہیں جو کہ مطلوب ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ يُّؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَآءُ وَ مَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا وَ مَا يَذَّكَّرُ اِلَّا اُولُوا الْاَلْبَابِ﴾ [1] ”اللہ عزوجل جس کو چاہتے ہیں، حکمت عطا فرماتے ہیں۔ اور جسے حکمت جیسی نعمت دی گئی تو اُسے تو بہت زیادہ خیر دے دیا گیا۔ اور اِس بات سے صرف وہی نصیحت حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔“ غضب کی قوت میں اگر تفریط اور کمی ہو تو اسے بزدلی کہتے ہیں اور اگر افراط اور زیادتی ہو تو اسے رعونت کہتے ہیں اور اگر اعتدال ہو تو اسے شجاعت کہتے ہیں جو کہ مطلوب ہے۔ بس اگر کسی کو غصہ نہ آئے تو وہ بزدل ہے بلکہ بے غیرت ہے اور غصہ کا نہ آنا کوئی شریعت کا مطالبہ نہیں ہے۔ اور جسے بلا وجہ غصہ آئے اور ایسی جگہ غصہ کھائے جہاں غصہ نہیں کھانا چاہیے تھا تو یہ رعونت ہے۔ اور جو اللہ کے دین کے لیے غصہ کرتا ہے اور اپنے نفس کے لیے غصہ پی جاتا ہے تو یہ اعتدال ہے اور اسی کا نام شجاعت ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: ((وَاللّٰہ مَا انْتَقَمَ لِنَفْسِهِ فِي شَيْءٍ يُؤْتَى إِلَيْهِ قَطُّ، حَتَّى تُنْتَهَكَ حُرُمَاتُ اللّٰہِ ، فَيَنْتَقِمُ لِلَّهِ)) [2] ”اللہ کی قسم! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی بھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ البتہ اگر اللہ کی حدود میں سے کسی حد کی حرمت پامال کی جاتی تو آپ اللہ کے لیے انتقام لیتے تھے۔“ بعض اوقات انسان غصہ اپنے نفس کے لیے کر رہا ہوتا ہے لیکن نام دین کا لیتا ہے، یہ بھی غلط ہے بلکہ زیادہ خطرناک ہے۔ غضب کی قوت سے صرف غصہ نہیں پیدا ہوتا بلکہ بغض، نفرت، عداوت اور رعونت وغیرہ جیسے کئی قسم کے رذائل پیدا ہوتے ہیں۔ شہوت کی قوت میں اگر تفریط اور کمی ہو تو یہ سستی ہے بلکہ مردانگی کے خلاف ہے۔ اور اگر شہوت کی قوت میں افراط اور زیادتی ہو تو ہوس ہے اور اگر اس میں اعتدال ہو تو یہ عفت ہے اور یہی دین میں مطلوب ہے۔ یعنی ہمارا دین نہ تو ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم اپنی شہوت کی قوت کو دبا دیں یا اسے جڑ سے ہی ختم کر دیں۔ ان دونوں صورتوں کا نتیجہ نسل انسانی کا خاتمہ ہے جو کہ فطرت کے خلاف ہے۔ اِسی طرح ہمارے دین کا یہ بھی تقاضا نہیں ہے کہ ہم اپنی شہوت کو بے لگام چھوڑ دیں کہ حلال وحرام کی پرواہ نہ رہے۔ اور اگر شہوت کی قوت کو حلال میں استعمال کیا جائے جیسا کہ نکاح وغیرہ میں اور حرام سے بچایا جائے تو اسے عفت کہتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ اَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىِٕكُمْ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ٭ وَ لْيَسْتَعْفِفِ الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى يُغْنِيَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ﴾ [3]
[1] سورة البقرة:2: 269 [2] صحيح البخاري، كتاب الحدود، بَابُ إِقَامَةِ الحُدُودِ وَالِانْتِقَامِ لِحُرُمَاتِ اللّٰه: 6786 [3] سورة النور:24: 32۔33