کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 28
بھی باقی رہے گا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: عَنْ بُرَيْدَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، قَالَ: ((بَشِّرِ الْمَشَّائِينَ فِي الظُّلَمِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)) [1] ”سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لوگ اندھیروں میں کثرت سے مسجد کا رخ کرتے ہیں، انہیں قیامت کے دن مکمل نور کی خوش خبری دے دو۔“ حدیث کی روشنی میں لطائف آٹھ ہیں کہ جن میں چار انسانی جسم میں ہیں اور چار اس کے جسم سے باہر ہیں۔ اور یہ دو کاموں سے روشن ہوتے ہیں، ایک فجر کی نماز با جماعت ادا کرنے سے اور دوسرا ان کے روشن ہونے کی دعا مانگنے سے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز کے لیے مسجد جاتے ہوئے یا فجر کی نماز میں یہ دعا مانگا کرتے تھے: ((اللّٰهمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَاجْعَلْ فِي لِسَانِي نُورًا، وَاجْعَلْ فِي سَمْعِي نُورًا، وَاجْعَلْ فِي بَصَرِي نُورًا، وَاجْعَلْ خَلْفِي نُورًا، وَأَمَامِي نُورًا، وَاجْعَلْ مِنْ فَوْقِي نُورًا، وَمِنْ تَحْتِي نُورًا اللّٰهمَّ، وَأَعْظِمْ لِي نُورًا)) [2] ”اے اللہ! میرے دل کو نور سے بھر دے اور میری زبان میں نور رکھ دے۔ اور میری سماعت میں نور فرما دے اور میری بصارت کو نور بنا دے۔ اے اللہ! میرے آگے نور فرما دے، پیچھے نور فرما دے، اوپر نور فرما دے اور نیچے نور فرما دے۔ اے اللہ! میرے نور کو بڑھا دے۔“ قوائے ثلاثہ علما کا کہنا ہے کہ اللہ عزوجل نے ہر انسان میں تین قوتیں رکھی ہیں: عقل کی قوت، غضب کی قوت اور شہوت کی قوت۔ ان تینوں قوتوں میں افراط وتفریط یعنی زیادتی اور کمی (extremes) ظلم ہے جبکہ اعتدال یعنی میانہ روی مطلوب ہے۔ عقل کی قوت ایسی قوت ہے کہ جس کے ذریعے انسان غور وفکر کرتا ہے۔ عقل کی قوت میں تفریط اور کمی یہ ہے کہ جہاں اسے استعمال کرنا چاہیے وہاں ہم اسے استعمال نہ کریں۔ اور اس سے کند ذہنی اور حماقت (stupidity)جنم لیتی ہے۔ اور عقل کی قوت میں افراط اور زیادتی یہ ہے کہ ہم اِس کا وہاں بھی استعمال کریں جہاں اس کا استعمال کرنا بے معنی اور لا یعنی ہو اور اسے سوفسطائیت(sophistry) کہتے ہیں۔ اور اگر عقل کی قوت
[1] السجستاني، سليمان بن الأشعث، سنن أبي داود، كِتَاب الصَّلَاةِ، بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمَشْيِ إِلَى الصَّلَاةِ فِي الظَّلَامِ:561، قال الألباني هذا الحديث صحيح، دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الأولى، 1999م [2] سنن أبي داود، أَبْوَابُ قِيَامِ اللَّيْل، بَابٌ فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ:1353، قال الألباني في هذا الحديث صحيح