کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 27
میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب دل صالح ہو جاتا ہے تو انسان کا سارا جسم صالح ہو جاتا ہے اور اگر اس میں فساد ہو جائے تو سارا جسم فساد والا ہو جاتا ہے۔[1] لہذا قلب کو توجہ کا مرکز بنانا اور اسے اللہ کی طرف متوجہ رکھنے کی کوشش کرنا، یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔ لطائف کو روشن کرنے کا ایک طریقہ تو صوفیاء نے متعارف کروایا کہ جس سے ہمیں اتفاق نہیں ہے کہ جس میں مراقبہ، ذکر جہری، پاس انفاس، ذکر خفی اور ضرب قلب جیسے ذرائع سے لطائف روشن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ سب ذرائع اس معنی میں غیر مسنون ہیں کہ خیر القرون میں ان پر عمل نہیں تھا، لیکن اس کے برعکس ان سات لطائف یعنی قلب، ذہن، زبان، آنکھیں، کان، معدہ اور ناف کو ہم فرائض کی پابندی اور نوافل پر دوام کی صورت میں روشن کرنے کی بات کریں تو یہ مسنون ذریعہ ہے۔ لطیفہ قلب کی روشنی تو یاد الہی میں ہے اور لطیفہ زبان کے روشن کرنے سے مراد آفات سے اس کی حفاظت اور ذکر الہی سے رطب اللسان رکھنا ہے۔ لطیفہ دماغ اس وقت روشن ہو گا جبکہ خالص توحید کا حامل ہو اور ہر قسم کے شرکیہ اور کفریہ افکار ونظریات سے پاک ہو۔ لطیفہ سماعت اور بصارت کا روشن ہونا بھی ان کے شریعت کے مطابق استعمال کے بقدر ہے۔ لطیفہ معدہ کی روشنی حرام سے اجتناب اور لطیفہ ناف کی روشنی ہر قسم کی شہوات سے اجتناب سے حاصل ہوتی ہے۔ من جملہ اگر انسان شریعت اسلامیہ پر عمل کرے اور دل کو اللہ کی طرف متوجہ رکھنے کے لیے، زبان و دماغ کے ساتھ، دوام ذکر و فکر الہی کی عادت ڈالے تو اس کے جمیع لطائف روشن ہو جائیں گے۔ شیخ الکل فی الکل علامہ نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ (متوفیٰ1320ھ) کا کہنا ہے کہ صلوات خمسہ یعنی پانچ نمازیں ہی لطائف خمسہ ہیں اور قرآن مجید سلطان الاذکار ہے۔ بعض صوفیاء چونکہ سلطان الاذکار کو الگ سے لطیفہ شمار نہیں کرتے لہذا شیخ الکل نے بھی لطائف کی تعداد پانچ بیان کرتے ہوئے چھٹے لطیفے یا سلطان الاذکار سے مراد قرآن مجید لیا ہے۔ یہ لطائف کی سلفی تعبیر ہے یعنی جس نے اپنے پانچ لطائف روشن کرنے ہوں وہ اپنی نمازوں کو بہتر سے بہتر بنائے یہاں تک کہ انہیں درجہ احسان تک لے آئے اور جس نے سلطان الاذکار کو روشن کرنا ہو تو وہ قرآن مجید کی تلاوت کو بہتر کرے یہاں تک کہ حدیث کے الفاظ کے مطابق ”أهل اللّٰه“ میں اور ”أصحاب القرآن“ میں شامل ہو جائے۔[2] نمازوں کے لطائف سے انسان کا باطن اس قدر روشن ہو گا کہ اس کا یہ نور قیامت والے دن
[1] ((أَلاَ وَإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً: إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ، أَلاَ وَهِيَ القَلْبُ)) (صحيح البخاري، كِتَابُ الإِيمَانِ، بَابُ فَضْلِ مَنِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ: 52) [2] القزويني، أبو عبد اللّٰه محمد بن يزيد، سنن ابن ماجة، افتتح الكتاب في الإيمان وفضائل الصحابة والعلم، باب فضل من تعلم القرآن وعلمه: 215، قال الألباني هذا الحديث صحيح، دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الأولى، 1999م