کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 26
مبتلا ہے۔ اگر یہ اتنی ہی بڑی حقیقت تھی تو اس بارے قرآن مجید کی کوئی ایک تو صریح آیت موجود ہوتی۔ اور اگر اس بارے قرآن مجید کی کوئی ایک بھی صریح آیت موجود ہوتی تو یہ صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین، تبع تابعین ، ائمہ دین اور محدثین عظام رحمہم اللہ کا سر فہرست عقیدہ ہوتا۔
تزکیہ نفس اور لطائف
صوفیا ءکے نزدیک اصلاح نفس میں لطائف کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ صوفیا ءکی اصطلاح میں لطائف سے مراد روح انسانی کے اعضائے رئیسہ (major parts) ہیں۔ اور آسان الفاظ میں ان کے نزدیک انسانی بدن میں کچھ مقامات ایسے ہیں کہ جو انوار کا محل اور مقام ہیں اور انہیں اذکار کے ذریعے روشن کیا جاتا ہے۔ نقشبندیہ میں عموماً چھ لطائف معروف ہیں۔ قلب، روح، سر، خفی، اخفی اور نفس۔[1] بعض نے سلطان الاذکار کو بھی شامل کرتے ہوئے سات بیان کیے ہیں۔[2] بعض نے ان کی تعداد پانچ یا دس بھی بیان کی ہے جبکہ بعضوں کے نزدیک ان کی تعداد تیس سے اوپر ہے۔
نقشبندیہ میں لطائف ستہ میں سے ایک کا مقام دل، دوسرا دل سے کچھ اوپر، تیسرا دل کے سامنے دائیں جانب، چوتھا دل کے سامنے سے کچھ اوپر، اور پانچواں ان دونوں کے اوپر درمیان میں اور چھٹا پیشانی میں ہے۔ درج ذیل تصویر نقشبندیہ کے نزدیک انسانی بدن میں لطائف ستہ کے مقامات کو بیان کر رہی ہے۔ چشتیہ نے بھی ان کی تعداد چھ ہی بیان کی ہے لیکن تین لطائف کے مقامات میں اختلاف کیا ہے۔ انہوں نے معدے، ناف اور دماغ کو بھی اس میں شامل کیا ہے۔
کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی لطائف پر توجہ کروائی یا ان کے لطائف روشن کروائے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ صرف صحابہ رضی اللہ عنہم ہی نہیں بلکہ تابعین، تبع تابعین اور فقہائے محدثین کے زمانے میں بھی لطائف کا کوئی تصور موجود نہیں تھا بلکہ صوفیا ءمیں معروف رائے کے مطابق حضرت بہاؤ الدین رحمہ اللہ (متوفی791ھ) سے پہلے تصوف کی تاریخ میں لطائف کا تصور موجود نہیں تھا۔
صوفیاء کے اس تصورِ لطائف میں ایک چیز قابل توجہ ہے اور وہ لطیفہ قلب ہے۔ بلاشبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیسیوں روایات ایسی ہیں جو اس مقام یا عضو کی اصلاح اور اس پر توجہ کے بارے میں مروی ہیں جیسا کہ ایک روایت
[1] ذوقی، سید محمد شاہ، سر دلبراں: ص 356، الفیصل ناشران، لاہور، 2005
[2] محمد اکرم اعوان، لطائف اور تزکیہ نفس: ص 2، دار العرفان، چکوال