کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 25
اسے سمجھایا کہ کتنے زیادہ حوالوں سے قرآن اور بائیبل کے ماننے والے ملتے جلتے عقائد کو مانتے ہیں۔ اصل مسئلہ صرف اتنا ہے کہ ہم سیدنا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو خدا یا خدا کا بیٹا نہیں بلکہ ایک بہت برگزیدہ پیغمبر تسلیم کرتے ہیں۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا تو میں نے پوچھا کہ اب تم مجھے کوئی ایک بھی آیت بائیبل سے ایسی پیش کردو جس میں سیدنا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے خدائی کا دعویٰ کر کے اپنی عبادت کا حکم دیا ہو۔ یہ سن کر اس نے وہ آیات یکے بعد دیگرے سنانی شروع کیں جو دراصل کوئی دوسری بات بیان کر رہی تھیں۔ میں ایک ایک کر کے اس کی پیش کردہ آیات کو واضح کرتا گیا۔ یہاں تک کہ اس کو اعتراف کرنا پڑا کہ ایسی کوئی آیت براہ راست موجود نہیں۔ میں نے مسکرا کر اسے سمجھایا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنا بڑا عقیدہ واضح الفاظ میں موجود ہی نہ ہو؟ اس کے چہرے کی مسکراہٹ اب پھیکی سی تھی۔ میں نے اب ان حوالوں کو بائیبل سے بیان کرنا شروع کیا جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ایک ہی آسمانی باپ یعنی خدا کی جانب بلاتے رہے اور اسی کو خود بھی سجدہ کرتے رہے۔ اس نے اقرار کیا کہ ابھی اس کے پاس اس کا جواب نہیں اور وہ اس بارے میں تحقیق کر کے بتائے گا۔ یوں ہماری نشست ختم ہوئی۔ اس کے بعد کے چند روز میں نے اسے نہایت بے سکونی کی حالت میں دیکھا۔ اس کا وہ سکون اب کہیں غائب ہو گیا تھا جو اس کا خاصہ تھا۔ یہ عقدہ مجھ پر اب کھل چکا تھا کہ جس سکون کو اس منیجر نے اختیار کیا تھا وہ ایک نقلی نقاب سے زیادہ نہ تھا جو دلائل سے یکدم منہدم ہو گیا تھا۔ چند دن بعد اس نے خود مجھ سے بات کی اور کہا کہ ان باتوں کے جواب نہیں ہیں مگر وہ بنا دلیل اس بات کو مانے گا کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ہی خدا ہیں کیونکہ وہ اسے وحی کرتے ہیں۔ میں نے جواب میں اسے پھر ان گنت ایسے ہی واقعات سنائے جو مختلف عقائد کے لوگوں کے ساتھ ہوتے آئے ہیں۔ ساتھ ہی ان ذہنی مریضوں کی کہانیاں بھی یاد کروائی جنہوں نے اپنی اولاد کو یا کسی عزیز کو اس لئے قتل کر دیا کہ ان کے بقول خدا نے انہیں ایسا کرنے کی وحی کی تھی۔ اس سب سے گھبرا کر اس نے مجھے ڈرتے ڈرتے اپنے چرچ آنے کی دعوت دی تاکہ میں وہاں کسی سے مل سکوں۔ میں نے دعوت قبول کی اور اللہ سے دعا کر کے مقررہ اتوار کو اس بہت بڑے چرچ میں جا پہنچا۔ وہاں ہوتی ہوئی ہر عبادت کا مشاہدہ کیا اور خیال رکھا کہ کسی شرکیہ عبادت کا حصہ نہ بنوں۔ عبادت کے اختتام پر میرے مینجر نے مجھے اپنے بڑے سے ملوایا۔ اس سے بھی شائستہ مکالمہ ہوا اور زیادہ دیر نہ لگی جب اس کے پاس بھی کہنے کو اس کے سوا کچھ نہ بچا کہ بنا دلیل سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت تسلیم کی جائے معاذ اللہ!۔ اس کے بعد کھانے کی میز پر اس کی بیوی مجھ سے برزخی زندگی کے اسلامی نکتہ نظر کو سمجھتی رہی اور اپنے دیرینہ سوالات کے جوابات پاکر خوشگوار حیرت میں مبتلا رہی۔ جب تک میں وہاں نوکری کرتا رہا وہ اپنے عیسائی دوستوں کے ساتھ مل کر میرے عیسائی ہو جانے کی دعا مانگتا رہا ا ور میں اللہ سے اس کی ہدایت کا طلب گار رہا۔ الحمدللہ !مجھے اطمینان ہے کہ اس تک دین کا پیغام الہامی دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ پہنچ گیا۔ اب ماننا نہ ماننا اس کا اپنا عمل ہو گا۔“ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کو ماننے والے صوفیاء حضرات اسی قسم کی غلطی میں مبتلا ہیں کہ جس میں یہ عیسائی مبلغ