کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 24
عیسائیت کی حقانیت کو ثابت کر سکے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ معاذ اللہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام خدا ہیں اور ساتھ ہی خدا کے بیٹے بھی ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ مجھے پورے اعتماد سے بتاتا کہ خدا روز مجھ پر وحی کرتا ہے اور مجھ سے مخاطب ہوتا ہے۔ دھیان رہے کہ وہ روزمرہ کی زندگی میں بلاشبہ ایک ذہین، فطین اور نفیس انسان تسلیم کیا جاتا تھا۔ میں نے اس سے اس کی اس وحی کی کیفیت پوچھی تو اس نے بتایا کہ وہ باقاعدہ ایک آواز سنتا ہے جو اس کے جسمانی کان میں نہیں بلکہ دماغ میں گونجتی ہے۔ یہ آواز اسے بتاتی ہے کہ اسے آج کیا کیا اچھے کام کرنے ہیں؟ اکثر اسے ایسی باتیں معلوم ہوتی ہیں جو اسے معلوم ہونا ناممکن تھیں۔ مثال کے طور پر یہ آواز اسے حکم دیتی کہ فلاں شخص کے پاس جاؤ اور اسے تسلی دو کہ اس کا باپ اس سے ناراض نہیں ہے۔ جب اس نے جا کر یہ پیغام مطلوبہ انسان تک پہنچایا تو وہ شخص روہانسا ہو گیا اور اس نے بتایا کہ ابھی چند روز پہلے ہی اس کے باپ کا انتقال ہوا ہے جسے وہ بہت یاد کرتا ہے۔ اسی طرح ایک بار اس نے مجھے میری بیوی کی دیرینہ بیماری کا نہایت پیچیدہ نام بتایا جو کہ ان ہی دنوں میڈیکل رپورٹس میں مجھے معلوم ہوئی تھی اور اسے میرے سوا کوئی دوسرا آفس میں نہیں جانتا تھا۔ یہ بات بتا کر اسے ایسا لگا کہ شاید میں اس سے مرعوب ہو جاؤں گا اور شاید مجھے کسی حد تک مرعوب ہو بھی جانا چاہیے تھا لیکن میں اپنے مرحوم شیخ کی بدولت یہ جانتا تھا کہ نفسی علوم کے ذریعے یا قرین (جن) کا استعمال کر کے کچھ ایسی باتیں جان لینا جو سامنے والے کے ذہن میں پہلے سے موجود ہو کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ میں نے اس مینجر کو پورے سکون سے سمجھایا کہ اس طرح کی شعبدہ بازیاں یا کرامات تو ہر مذہب کا فرد کر لیتا ہے۔ اس سے حق کے حق ہونے کا تعین قطعی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا فیصلہ تو صرف وحی اور فطرت سلیمہ مل کر ہی کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی میں نے اسے کچھ ذاتی اور کچھ دیگر مسلمانوں کے سچے مافوق الفطرت واقعات سنائے جسے سن کر اس کے چہرے پر فکر کے سائے منڈلانے لگے۔ میرا یہ مینجر ایک نہایت پرسکون نظر آنے والا انسان تھا۔ جس کے سکون کا یہ عالم تھا کہ روز سب کو ای میل کر کے بتاتا کہ آج کا دن رب کی کتنی نعمتوں سے مزین نظر آ رہا ہے۔ البتہ اس کے لئے یہ بات پریشان کن تھی کہ اسے میرا وجود بھی پوری طرح پرسکون نظر آتا۔ اسے یہ بات سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کوئی شخص سیدنا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو خدا نہ مانے اور پھر بھی پرسکون رہے، یہ کیسے ممکن ہے ؟ دوسری طرف مجھے اعتراف ہے کہ چونکہ میں بھی سکون کو ایمان و عمل کا لازمی نتیجہ مانتا ہوں لہٰذا میں بھی تعجب میں تھا کہ یا اللہ ایک شخص بدترین شرک میں مبتلا ہو کر بھی اس درجہ پرسکون کیسے ہے؟ یہ دو طرفہ حیرت ایک زمانے تک جاری رہی۔ جب بے تکلفی بڑھی تو میں نے کھل کر اس سے عقائد کے متعلق بات کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک روز ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ صوفے پر بیٹھ کر اسی بارے میں بات کریں گے۔ چنانچہ وہ دن آگیا۔ میں نے اس سے کہا کہ کیونکہ تم قرآن حکیم کو اللہ کا کلام نہیں مانتے، اس لئے آج میں تم سے صرف اس کتاب کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں جسے تم اللہ کا کلام مانتے ہو یعنی بائیبل۔ یہ سن کر اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اس کی حیرت میں اضافے کے لئے میں نے اسے بتایا کہ میں بائیبل سمیت دیگر نمائندہ مذاہب کے کئی صحائف کو پڑھ چکا ہوں۔ اب میں نے