کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 23
میں تردد ہوتا ہے کہ مومن موت کو ناپسند جانتا ہے اور مجھے مومن کی ناپسندیدگی گراں گزرتی ہے۔“
اس حدیث میں اولیاء اللہ انہی کو قرار دیا گیا ہے جو فرائض اور نوافل کے راستے اللہ کا تقرب حاصل کرتے ہیں۔ اور ان کی ایک علامت ان کا مستجاب الدعوات ہونا اور دوسری موت کو ناپسند جاننا ہے۔ اگر موت پسند ہو تو پھر بزرگی کے راستے پر ہے، بندگی پر نہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں غور کیا جائے تو بہت بلیغ ہیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ((مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللّٰہِ ، أَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللّٰہِ ، كَرِهَ اللّٰہُ لِقَاءَهُ)) فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللّٰہِ أَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ؟ فَكُلُّنَا نَكْرَهُ الْمَوْتَ، فَقَالَ: ((لَيْسَ كَذَلِكِ، وَلَكِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا بُشِّرَ بِرَحْمَةِ اللّٰہِ وَرِضْوَانِهِ وَجَنَّتِهِ، أَحَبَّ لِقَاءَ اللّٰہِ ، فَأَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَهُ، وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا بُشِّرَ بِعَذَابِ اللّٰہِ وَسَخَطِهِ، كَرِهَ لِقَاءَ اللّٰہِ ، وَكَرِهَ اللّٰہُ لِقَاءَهُ)) [1]
”سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جسے اللہ سے ملنا محبوب ہو، اللہ کو بھی اس سے ملنا پسند ہے۔ اور جسے اللہ سے ملاقات ناپسند ہو، اللہ کو بھی اس سے ملاقات ناپسند ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کہا: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اللہ سے ملاقات کو ناپسند جاننے سے مراد موت کو ناپسند جاننا ہے۔ ہم تو موت کو ناپسند جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایسا نہیں ہے بلکہ بندہ مومن کو آخر وقت میں جب اللہ کی رحمت، اس کی رضا اور جنت کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا اللہ سے ملاقات کا شوق بڑھ جاتا ہے اور اللہ بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتے ہیں۔ اور کافر کو جب اللہ کے عذاب اور غضب کی بشارت دی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملاقات کو ناپسند جانتا ہے اور اللہ عزوجل بھی اس سے ملاقات کو پسند نہیں کرتے ہیں۔“
اندر کا سکون کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ یہ تو ہندو، عیسائی اور بدھ بھی حاصل کر لیتے ہیں اور شاید مسلمان صوفیاء سے زیادہ حاصل کر لیتے ہیں۔ اصل شیء یہ ہے کہ کس حالت میں یا کیا کام کرنے کے نتیجے میں آپ کو وہ سکون حاصل ہوا ہے؟ اگر تو وہ کام ایسا ہے کہ جس کے ذریعے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے سکون حاصل کیا تو اس سے حاصل شدہ سکون بلاشبہ اللہ ہی کی طرف سے ہے جیسا کہ روایات میں ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت سے سکینت نازل ہوتی ہے تو ایسا سکون تو قطعی طور اللہ ہی کی طرف سے ہے لیکن وہ سکون جو دیگر طریقوں سے حاصل ہو سکتا ہے تو اس کی نسبت قطعی طور پر اللہ کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔ ہمارے دوست عظیم الرحمن عثمانی اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”پچھلی نوکری میں میرا مینجر ایک ایسا مخلص عیسائی تھا جو سنجیدگی سے نوکری چھوڑ کر اپنے علاقائی گرجا گھر کا سربراہ بننے کا متمنی تھا۔ جب اسے میرے مذہبی رجحان سے آگاہی ہوئی تو اکثر مجھ سے بہانے بہانے گفتگو کرتا تاکہ مجھ پر
[1] صحيح مسلم، كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ، بَابُ مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللّٰهِ أَحَبَّ اللهُ لِقَاءَهُ: 2684