کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 22
ہو گی؟ روایت کے الفاظ ہیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ: ((أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ، وَهُوَ سَاجِدٌ، فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ)) [1]
”سیدنا ابو ہریرۃرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے۔ پس اس حالت میں بہت زیادہ دعائیں کیا کرو۔“
اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تقرب الی اللہ کا سب سے بڑا ذریعہ فرائض پر عمل کو قرار دیا ہے۔ اور فرائض کے بعد اللہ کا قرب حاصل کرنے کا دوسرا ذریعہ نوافل ہیں۔ اور تیسرا کوئی ذریعہ ہمارے دین نے بیان نہیں کیا لہٰذا مراقبہ، لطائف، پاس انفاس، تصور شیخ، سماع اور وجد ”بزرگ“ بننے کے ذرائع تو ہو سکتے ہیں لیکن ”بندہ“ بننے کے نہیں۔ جسے بزرگی چاہیے، وہ تصوف کے ذرائع پر عمل کر لے، بزرگ بن جائے گا۔ اور جسے بندگی چاہیے، وہ دین کے ذرائع پر عمل کر لے ، اللہ عزوجل ”عباد الرحمن“ میں شامل فرمائیں گے۔ ان شاء اللہ! ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ((إِنَّ اللّٰہ قَالَ: مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ المُؤْمِنِ، يَكْرَهُ المَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ)) [2]
”سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی تو میرا اس کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اور میرے بندے کے پاس، تقرب کے اُن ذرائع میں سے کہ جو مجھے محبوب ہیں، فرائض سے بڑھ کر کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے کہ جس سے وہ میرا تقرب حاصل کر سکے ۔ اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ میرا محبوب بن جاتا ہے۔ اور جب وہ میرا محبوب بن جاتا ہے تومیں اس کی سماعت بن جاتا ہوں کہ جس سے وہ سنتا ہے۔ اور میں اس کی بصارت بن جاتا ہوں کہ جس سے وہ دیکھتا ہے۔ اور میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں کہ جس سے وہ پکڑتا ہے۔ اور میں اس کے پاؤں بن جاتا ہوں کہ جس سے وہ چلتا ہے۔ اور اگر مجھ سے سوال کرے تو ضرور اس کا سوال پورا کرتا ہوں۔ اور مجھ سے پناہ مانگے تو ضرور اس کو پناہ دیتا ہوں۔ مجھے اپنے کسی کام میں تردد نہیں ہوتا لیکن مومن کی جان قبض کرنے
[1] النيسابوري، مسلم بن الحجاج القشيري، صحيح مسلم، كِتَابُ الصَّلَاةِ، بَابُ مَا يُقَالُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ: 482، دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الأولى، 1998م
[2] صحيح البخاري، كِتَابُ الرِّقَاقِ، بَابُ التَّوَاضُعِ: 6502